داد بیداد۔۔۔سرحدی باڑ اور خندقیں۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

سرحدی باڑ اور خندقیں
خبر آگئی ہے کہ پاک فوج نے افغان سرپر خندقیں کھودنے اور باڑ لگانے کا کام شروع کیا ہے اب تک 1100کلو میٹر سرحد پر خندقیں کھودی گئی ہیں جبکہ 1300کلو میٹر پرباڑ لگا کر دشمن کے حملوں سے محفوظ کیا گیا ہے دونوں کام ساتھ ساتھ جاری ہیں خندق اور باڑ کے ساتھ سرحد کو بند کرنے کا طریقہ تاریخ سے ثابت ہے نبی کریم ﷺ کا ایک غزوہ اس حوالے سے غزوہ خندق کہلاتاہے عربی میں اس کو غزوہ احزاب کہا گیا ہے دشمن کے حملوں سے وطن کو محفوظ بنانے کے لئے اس نوعیت کی تیاریاں ہر ملک اپنی سرحد پر کرتا ہے پاکستان نے بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد پر اس قسم کی حکمت عملی اپنا کر اپنی سرحد کو محفوظ کیا ہوا ہے 1978ء سے پہلے افغان سرحد محفوظ تھی اس لئے باڑ لگانے اور خندقیں کھودنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی1978ء میں اگر افغان انقلابی حکومت کو کام کا وقت مل جاتا تو افغانستان اور پاکستان دوستی، برادری اور ہمسائیگی کے بہترین رشتے میں منسلک ہو کر ایک دوسرے کے دست و بازو بن جاتے مگر عالمی طاقتوں نے افغانستان کے اندر عوامی جمہوری انقلاب کو کامیاب ہونے نہیں دیا عرب اور یورپی ممالک سے چندہ جمع کرنے کے لئے امریکیوں نے چترال، سوات،باجوڑاور دیر میں افغان خانہ جنگی کی جعلی فلمیں بنائیں مئی 1978ء میں پہلی فلمی ٹیم چترال آئی اس ٹیم نے گولین کی وادی میں خانہ جنگی کی جعلی فلم بندی کی اور اس کو دکھا کر عربوں سے بھی چندہ لیا یورپی ممالک سے بھی چندہ جمع کیا 1978ء کے دسمبر میں افغان سرحد کی بین لاقوامی حیثیت ختم کردی گئی اور افغانوں کو پاکستان آنے کی غیر مشروط پیشکش کی گئی پاکستان کی مقدس سرحد کو بے حرمت اور بے آبرو کرنے کا یہ واقعہ آج تک پاک فوج کے لئے مستقل ”دردِ سر“ بنا ہوا ہے گزشتہ 39سالوں سے دہشت گر دوں کی آمد کا یہ راستہ پا کستان کے جسم کو زخموں پر زخم لگا رہا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں پر حملہ ہو یا جی ایچ کیو،پی این اِس مہران یا کا مرہ ائیر بیس پر حملہ، ہر واقعے کے مجر موں نے افغان سر حد عبو ر کر کے پا کستان کو نشا نہ بنا یا گذشتہ 39سا لوں سے عا لمی طا قتوں نے افغا نستان کو دہشت گر دوں کی نر سری کے طور پر استعمال کیا اب بھی استعمال کر رہے ہیں۔ پا ک بھا رت سر حد پر بھا رتی فو ج کی گو لہ باری سے زیادہ خطرہ پا کستا ن کو افغان سر حد پر دُشمنوں کی آزاد انہ نقل و حر کت سے ہے۔ محب وطن حلقے 1978ء سے اب تک مسلسل یہ مطا لبہ دہرا رہے تھے کہ پاک افغان سر حد کو سر بمہر کرکے افغا ن سر زمین سے دہشت گر دوں کی آمد کا سلسلہ روک دیا جا ئے۔ لیکن عا لمی طا قتوں کی ڈکٹیشن پر اس سر حد کو بند کر نے میں پس و پیش کیا جا تا رہا۔ سر حد کو آزاد دیکھ کر بھا رت نے بھی اپنی تما م طا قت افغانستان کے اندر سے پا کستان پر حملوں کے لئے استعمال کر نا شروع کیا۔ پاک افغان سر حد سے متصل افغان ولا یتوں میں قند ہار سے لیکر ننگر ہار تک 12بھا رتی قونصل خا نے قا تم کئے گئے۔ سوات، دیر، پا ڑہ چنار، مہمند، تیراہ اور با جو ڑ کے ہنگا موں میں ملوث مجر موں نے افغان قو نصل خا نوں سے مد د لینے کا اعتراف کر لیا۔ قو می سلا متی کے اداروں کے پا س ایسی ویڈیوز بھی موجود ہیں جن میں بدنام ترین دہشت گردوں کو بھارتی قونصل خانوں سے خودکش جیکٹ، اسلحہ اور نقد پیسہ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے بعض دہشت گردوں کی رہائی کے لئے سیاستدانوں نے دباؤ ڈالنا شروع کیا تو ایک بریفینگ میں یہ ویڈیوز ان نادان رہنماؤں کو دکھائی گئیں اس کے بعد انہوں نے دہشت گردوں کی سرپرستی سے وقتی طور پر توبہ کرلیا پاک فوج کی طرف سے افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے اور خندقیں کھودنے کی تازہ ترین حکمت عملی وطن کے دشمنوں کو لگام دینے کے لئے بہت اہم ہے اب یہ وہ سرحد نہیں جس کے دونوں طرف پختون اور مسلمان بھائی رہتے تھے اب یہ وہ سرحد ہے جس کے مغرب میں بھارت ہے، امریکہ ہے، دیگر اقوام ہیں اس لئے اس کو بند کرنا اس پر باڑ لگانا اور اس سرحد پر خندقیں کھودنا وطن کی سلامتی کے لئے مشرقی سرحدکی حفاظت کے برابر ضروری اور لازمی ہے۔پاکستان نے 1978ء سے 1989ء تک اپنی سرحدوں پر دوسرا بڑا ظلم یہ کیا کہ دشمن کو مہاجر کے بھیس میں لاکر اپنی بازاروں، گلیوں، شہروں اور محلوں میں جگہ دی، مسجدوں اور مدرسوں میں جگہ دی مہاجر کے روپ میں پاکستان آنے والا ایک بھی افغانی آج پاکستان کا دوست نہیں ہے ہر کوئی آستین کا سانپ بنا ہواہے اس غلطی کا ازالہ بھی سرحدوں کی بندش کے سوا کچھ اور نہیں تھاامید ہے کہ اگلے چھ مہینوں میں 2600کلومیٹر افغان سرحد کو مکمل طورپر بندکردیا جائے گا پھر پاکستان دشمن کے حملوں سے محفوظٖ ہوگا۔