ضلع کونسل چترال میں اجلاس کے تیسرے روز تین قرار دادیں منظور کی گئیں

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) ضلع کونسل چترال میں اجلاس کے تیسرے روز تین قرار دادیں منظور کی گئیں۔ جن میں دو قرار داد مولانا محمود الحسن اور ایک قرار داد ممبر شیشی کوہ شیر محمد نے پیش کی۔ مولانا محمودالحسن نے اپنے ایک قرار داد میں یہ مطالبہ کیا۔ کہ صوبائی حکومت وزیر اعظم کی طرف سے چترال کیلئے اعلان کردہ 250بستروں کے ہسپتال کی تعمیر اور وفاقی یونیورسٹی کے قیام کو یقینی بنائے۔ اور ا س راہ میں روڑے اٹکانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت مختلف شکل میں وفاقی حکومت کیلئے مسائل پیدا کرکے چترال کے مجبور لوگوں کی ضرورت کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کرہا ہے۔ جس سے ضلع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس لئے صوبائی حکومت چترال کی پسماندگی اور ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے مزید مسائل پیدا کرنے سے اجتناب کرے۔انہوں نے ایک اور قرارداد میں مطالبہ کیا۔کہ چترال میں تنظیم دعوت عزیمت گذشتہ کئی سالوں سے ضلع سے باہر شادی کی آڑ میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کر رہا ہے ۔ اور اُن کی خدمات چترال کے ننگ و ناموس اور ثقافتی اقدار کے تحفظ کیلئے انتہائی ا ہم ہیں۔ اس لئے ضلع کونسل اُن کے خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس تنظیم کی بھر پور سپورٹ کرے۔ اس پر کونسل نے متفقہ طور پر دعوت عزیمت کے حق میں قرارداد منظور کی۔ اور تنظیم کے کام پر اُسے خراج تحسین پیش کیا۔تیسر ی قراداد ممبر ڈسٹرکٹ کونسل شیشی کوہ شیر محمد نے پیش کی۔ جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا۔ کہ محکمہ فارسٹ کی طرف سے جنگلات کی حفاظت کیلئے جو کلوژر بنائے گئے اوراُن کے لئے نگہبان مقرر کئے گئے ہیں۔ اُس میں مقامی لوگوں سے مشاورت نہیں کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک طرف حکومتی فنڈ ضائع ہونے کا امکان ہے۔ جبکہ دوسری طرف ان کلوژر میں مال مویشیوں کی چرائی اور جنگلات کی کٹائی بند نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔ اس لئے اس نظام کو کامیاب بنانے کیلئے کمیونٹی اور بلدیاتی نمایندوں کو مشاورت میں شامل کیا جائے۔ اس قرارداد پر ممبران کی طرف سے مختلف پہلووں پر بحث کی گئی۔ اور بالاخر متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اجلاس میں ان قراردادوں کے حوالے سے مولانا محمودالحسن، رحمت الہی،غلام مصطفی ایڈوکیٹ، محمد یعقوب خان، محمد حسین، شیر عزیز بیگ،نابیگ ایڈوکیٹ، شیر محمد، قاضی فتح اللہ،شیر محمد ارندو، عمادالحق، مولانا جمشید احمد، ریاض احمد، غلام مصطفے مستوج، عبدالوہاب اور رحمت ولی نے بحث میں حصہ لیا قبل ازین جب کنونیر ضلع کونسل مولونا عبدالشکور کی زیر صدارت تیسرے دن کا اجلاس شروع ہوا۔ تو خواتین ارکان نے ایک مرتبہ پھر اس بات پر اصرار کیا۔ کہ گذشتہ روز اُن کے مسائل کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لہذا وعدے کے مطابق کمیٹی تشکیل دی جائے۔ تاکہ ہم تسلی سے اجلاس جاری رکھ سکیں۔ اس پر کنونیر نے کہا۔ کہ آپ کے مطالبات کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ناظم نے وضاحت کردی ہے۔ کہ آپ کو خواتین کی ساٹھ لاکھ فنڈ کے علاوہ مزید فنڈ دیا گیا ہے۔ اب مزید اس حوالے سے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس پر خواتین ممبران آسیہ انصار، حصول بیگم، نگہت پروین، صفت بی بی نے پھر واک اوٹ کیا۔ اور کونسل سے چلے گئے۔ جنہیں واپس لانے کیلئے بھی کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ خواتین کی فنڈ کی غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے سے احتجاج جو تقریبا دو مہینوں سے چلا آرہا تھا۔ گذشتہ روز کنونیر کی طرف سے کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے پر مسئلے کے حل کی امید پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن خواتین ممبران کی طرف سے جذبات کے اظہار کے بعد ایک مرتبہ پھر اس میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔