داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔مفت مشورہ
ذرائع ابلا غ میں آج کل مفت مشورہ عام ہے دانشور وں کے مفت مشورے اپنی شان رکھتے ہیں عوامی، سما جی اور سیا سی کا رکنوں کے مفت مشورے اپنی آن بان رکھتے ہیں سب کے مشورے حکومت اور حکمرا نوں کے لئے ہوتے ہیں ہر مفت مشورہ لا کھوں ٹن وزن رکھتا ہے لیکن حکومت اور حکمران کا حال پطرس بخا ری کے ایک کر دار کی طرح ہے واحد متکلم کے صیغے میں اپنا حا ل بیان کر تے ہوئے اس کر دار کا عنوان رکھاہے ”سویرے کل آنکھ جو میری کھلی“ کر دار ایک کا م چور اور نا لا ئق طا لب علم ہے پورا سال کچھ نہیں پڑ ھا کوئی محنت نہیں کی ہا سٹل میں ایک سردار جی ان کا ہمسا یہ ہے امتحا ن قریب آتے ہی سردار جی اس کو نصیحت کر تا ہے کہ محنت کرو ورنہ فیل ہو جا و گے وہ محنت کا ارادہ کر کے اپنے کمرے میں آتا ہے اور ایک کا غذ پر لکھتا ہے کہ امتحا ن میں کل 22دن رہ گئے اس کے بعد کتا بوں کو گنتا ہے تو معلوم ہو تا ہے کہ کتا بوں کی تعداد 17ہے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ 22کو 17پر تقسیم نہیں کیا جا سکتا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کونسی کتاب پہلے پڑھی جا ئے ایک ایک کتاب اٹھا تا ہے پھر رکھ دیتا ہے، ہر روز یہی مشق کر کے سو جا تا ہے دن کم ہو تے جا تے ہیں کام کا بو جھ بڑھتا جا تا ہے یہاں تک کہ امتحا ن کا دن آجا تا ہے پطرس بخا ری کے کر دار کی طرح حکومت کے پا س وقت کم ہے کئی مسائل کا بوجھ ہے مثلا ً پرا نے قرضوں کی ادائیگی، نئے قرضوں کا حصول، بجلی کی شدید کمی، گیس کا شدید بحران، لو کل گورنمنٹ کی نا کا می، صو بوں میں احساس محرومی، سرحدوں پر دہشت گردی، شہروں میں پے درپے دہشت گردوں کے حملے، عدالتی کاروائی میں غیر معمولی تا خیر، کرپشن میں روز بروز اضا فہ، سیا سی جما عتوں میں ہم آہنگی کا فقدان، جمہوری اداروں میں جمہوریت سے گریز کا رجحان، آنے والے انتخا بات کی تاریخ کا مسئلہ اور انتخا بات کے ممکنہ نتائج کا ڈراونا خواب، الغرض جا ن نا تواں پہ کئی مسائل کو بوجھ ہے جو اٹھا ئے نہیں اُٹھتا مفت مشورہ دینے والے کا کوئی مسئلہ نہیں ارام سے بیٹھا ہے سکون میسر ہے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے جو من میں آئے وہ لکھ دیتا ہے، کہہ دیتا ہے نہ اس کا کوئی خر چہ ہے نہ اس کا کوئی نتیجہ چنا نچہ ایک صاحب کا مفت مشورہ حا ضر ہے طا لبان کی طرح قاضی مقر کر کے دو گھنٹے کی عدالت لگا ؤ اور ملزموں کو مجرم بنا کر سو لی لٹکا ؤ سب کچھ ٹھیک ہو جا ئے گا، ایک دوسرے صاحب فر ما تے ہیں 500دولت مند وں سے فی کس 3کروڑ روپے چند ما نگو اور تما م قرضے ادا کر کے ملک کو دیوا لیہ ہونے سے بچاؤ، ایک دانشور کا قو ل ہے کہ سرکاری زمینوں کا حساب کر کے تما م زمینیں فروخت کرو ملک کا قرضہ بے باق ہو جا ئے گا، ایک عوامی لیڈر کا مشورہ ہے کہ واپڈا، ریلوے، سٹیل ملز، پی آئی اے اور تیل و گیس کے کا ر پوریشن فروخت کر و، ملک کا قرضہ اتر جا ئے گا ایک محترم کا ارشاد گرامی ہے کہ سر کار ی پر و ٹو کول ختم کرو اتنا پیسہ جمع ہو گا کہ ملک قرض لینا بند کر کے قرض دینے والا ملک بنے گا عوامی اور سما جی رہنما ووں میں اکثریت کا یہ خیال ہے کہ سرکاری افیسروں کے مراعات اور پنشن ختم کر نے سے ملک کے معا شی، ما لیا تی یا اقتصا دی مسائل آنکھ جھپکتے ہی حل ہو جا ئینگے ایک بزرگ نے مفت مشورہ دیا ہے کہ تما م سیا سی جما عتوں کا مشترکہ جر گہ بلا کر تلخیوں کو ختم کیا جا ئے دشمنی کو دوستی میں بدل دیا جا ئے ملک امن اور خوشحا لی کا گہوارہ بنے گا اس نو عیت کے 123مشوروں کو جمع کر کے میں نے شاہ صاحب کو پیش کیا انہوں نے سارے مشورے پڑھنے کے بعد کہا اگر نقار خا نے میں نقار چیوں کو خا موش کر کے میری بات سننے کے لئے کوئی اما دہ ہو تو میں کہوں گا کہ پہلے وہ کام کرو جس پر کوئی خر چہ نہیں آتا جس کے لئے قانون میں ترمیم کی ضرورت نہیں پڑتی یہ دو کام ہیں سیا سی جما عتوں کو ایک جر گے میں بٹھا ؤ صلح کا معا ہدہ کرو اور امن و آشتی کے ساتھ آگے بڑھو اس پر کوئی خر چہ نہیں آتا اس کے بعد سر کاری پرو ٹو کول ختم کرو اگر کسی حا کم نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا تو اس کو پرو ٹو کول اور سکیورٹی کے بغیر گھومنا چا ہئیے ہاں طا لبان کی عدالت کا قاضی مجھے پسند ہے اس پر غور ہونا چا ہئیے۔