دادبیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔۔ابلیس کو کنکریاں مارو

Print Friendly, PDF & Email

دادبیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔۔ابلیس کو کنکریاں مارو
حجاج کرام 11,10,اور12ذو الحجہ کے دن منیٰ (Mena) میں جمرات پر ابلیس کو کنکریاں مارتے ہیں۔کنکریاں مارنے کے تین مقامات ہیں،یہ وہ مقامات ہیں جہاں شیطان حضرت ابراہیم علیہ السلام اور انکی بیوی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ورغلاکر عظیم قربانی کو روکنے آیا تھا امام الانبیاء،ان کی اہلیہ اور بیٹے نے ابلیس کو کنکریاں مارکر بھگایا تھا۔ان مقامات پر علامتی طورپر کنکریاں مارنے کی عبادت قیامت تک جاری رہے گی۔حاجیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے لاکھوں حاجیوں کا ایک ہی جگہ آکر کنکریاں مارنا اور واپس جانا مشکل ہوا،ازدھام اور جمگھٹے کی وجہ سے حادثات ہونے لگے تو سعودی عرب کی وزارت حج اور اوقاف نے اوپر نیچے تین منزلہ راستے تعمیر کئے ان راستوں پرجانے والے مقررہ مقام پرکنکریاں مارکر دوسرے راستوں سے واپس آتے ہیں تو بھگڈرکا کوئی واقعہ نہیں ہوتا عمر رسیدہ اور معذور حجاج بھی عبادت سے محروم نہیں رہتے۔یہ جمرات کا محفوظ اور مشروع عمل ہے۔علماء کہتے ہیں کہ اس عمل میں حاجی کے ہاتھ کی کنکری ابلیس کی سر پر لگتی ہے اور اس نافرمان کا سر جھک جاتا ہے حج کے مناسک میں یہ بہت اہم عمل ہے اس کی علامتی اہمیت 5بڑی وجوہات سے ہے۔حاجی اس عمل کے ذریعے ابلیس کی5خصلتوں اور 5عادتوں کو کنکری مارتا ہے اور یہ کنکری کو پھینکتے ہوئے نفس کے اندر بیٹھے ہوئے ابلیس کو مخاطب کرتا ہے کہ تجھے نہیں چھوڑونگا۔قرآن اور احادیث میں ابلیس کی جو 5خصلتیں اور عادتیں بیان ہوئی ہیں ان میں پہلی رذیل خصلت غرور اورتکبر ہے۔جب ابلیس کو حکم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کوسجدہ کرو تو اس نے کہا میں آدم سے بہترہوں میرا درجہ اونچا ہے میرا مقام بلند ہے یہ اس کا غرور اور تکبر تھا اس تکبر کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوا،مردودکرکے رب کی بارگاہ سے دھتکارا گیا۔”تکبر عزازیل را خوار کرد“تکبر نے ابلیس کو ذلیل اور رسوا کیا دوسری بات یہ ہے کہ اس کی خصلت میں عقل پرستی کا مادہ نمایاں تھا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری کو عقل کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنے کی گمراہی میں مبتلا تھا۔اس نے اپنے تکبر کی عقلی توجیہہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا تھا آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا آگ مٹی سے افضل ہے اس بناء پر میں آدم پر فوقیت رکھتا ہوں یہ بھی اس کی گمراہی کی ایک دلیل تھی حاجی جمرات پرجاکر ابلیس کو کنکری مارتا ہے تو اپنے نفس کی اس خصلت کو نشانہ بناتا ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو عقل کی کسوٹی پر مت چڑھاؤ حکم کی تعمیل کرو۔تیسری خصلت اور عادت یہ ہے ہے کہ ابلیس نے بابا آدم اورا ماں حوا کو جنت سے نکالنے کے لئے حیلہ سازی اور بہانہ بازی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ تم نے اگر ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا تو فرشتے بن جاؤگے یا ہمیشہ جنت میں رہنے والے بنوگے۔چوتھی خصلت یہ ہے کہ ابلیس نے جھوٹ بولا،اس کی باتیں سب جھوٹی تھیں ان میں سے بڑا جھوٹ یہ تھا کہ اُس نے بابا آدم اور اماں حوا سے کہا میں تمہارا خیرخواہ اور نصیحت کرنے والا ہوں خیر وبد سمجھانے والا ہوں یہ سب سے بڑا جھوٹ تھا۔پانچویں خصلت یہ ہے کہ ابلیس قسم کھاتا ہے اورجھوٹی قسم کھاتا ہے اُس نے بابا آدم اور اماں حوا کے سامنے اپنے جھوٹے حیلوں بہانوں کو چھپانے اورجھوٹ کا باور کرانے کے لیے قسم کھائی،حاجی جب شیطان کو کنکریاں مارتا ہے تو اپنے نفس کی ان پانچ خصلتوں سے توبہ کرتا ہے وہ تکبر کو بھی کنکری مارتا ہے وہ عقل پرستی،حیلہ سازی اورجھوٹ کواور قسم کھانے کی بُری خصلت کو بھی کنکری مارتا ہے،وہ اپنے نفس کو شیطان کی تمام خصلتوں سے پاک کرتا ہے اس لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ حاجی گناہوں سے پاک ہوکر واپس آتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کو ابلیس نظر آیا تھا کنکریاں ابلیس کے منہ پرماری گئی تھیں حاجی کوحکم ہے کہ ابلیس کی بڑی خصلتوں اور عادتوں کو اپنے نفس کے اندر تلاش کرکے کنکریاں مارو اور شیطانی خصلتوں سے خو د کوپاک کروں،واپس گھروں کو لوٹو توشیطانی خصلتوں کودور پھینکو تم گناہوں سے پاک ہوجاؤگے۔