داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔چھا نٹی کا عمل
اردو میں جس کا م کو ہم چھا نٹی کہتے ہیں انگریزی میں یہ کا م سکریننگ (Screening) کہلا تا ہے کسی مقصد کے لئے ہزاروں درخواستیں جمع ہو جا ئیں تو دنیا بھر میں سکریننگ ٹیسٹ کر کے اُمیدواروں کی چھا نٹی کی جا تی ہے پا کستان میں جگہ جگہ غلط سکریننگ کی شکا یا ت پر عدالتوں نے نوٹس لے لیا ہے بعض حا لات میں حکم امتنا عی بھی دیا جا چکا ہے بعض ٹیسٹوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے یہ سب اس لئے ہوا کہ ہمارے ہاں سکریننگ کے لئے درست طریقہ اختیار نہیں کیا جا تا خیبر پختونخوا میں سکریننگ ٹیسٹ پہلی بار 1989ء میں متعارف کرایا گیا اور آغا خا ن یو نیور سٹی کراچی سے ما ہرین کی ٹیم بلا ئی گئی اس ٹیم نے نصاب تعلیم کو سامنے رکھ کر میڈیکل اور انجینرنگ یونیور سٹیوں کے لئے سکریننگ ٹیسٹ منعقد کر کے نتائج دیدیے تین سالوں کے تجربے کے بعد سکریننگ ٹیسٹ کا کام صو بائی حکومت نے اپنے ذمے لے لیا 2015ء میں صو بائی حکومت نے تما م ملا زمتوں کے لئے سکریننگ ٹیسٹ متعارف کرایا اور مختلف نجی کمپنیوں کو اس کا ٹھیکہ دیدیا، بات آگے بڑھی تو صوبائی پبلک سروس کمیشن نے بھی سکریننگ ٹیسٹ متعارف کرایا اب یہاں تک نو بت آگئی ہے کہ سکریننگ ٹیسٹ کا مقصد ہی فوت ہو گیا ہے ایک پرانا گِھسا پِٹا لطیفہ مشہور ہے ایک اجنبی نے دیہا تی سے پو چھا یہ راستہ کدھر جا تا ہے؟ دیہا تی نے کہا یہ راستہ کہیں نہیں جا تا یہیں رہتا ہے لو گ آتے جا تے ہیں، 33سال پہلے صو بائی حکومت نے سکریننگ شروع کروائی تو اس کا مقصد یہ تھا کہ میڈیکل اور انجینرنگ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لئے مو زوں ذہا نت اور منا سب تعلیمی قابلیت کے اُمیدواروں کی چھا نٹی کی جا ئے اس مقصد کے لئے پر چہ سوالات بنا نے والے ما ہرین کی باقاعدہ تربیت کی گئی تھی جن کے بنا ئے ہوئے پر چے کو دیکھ کر دل خوش ہوتاتھا اب پلوں کے نیچے سے اتنا پا نی بہہ چکا ہے کہ پُل کو یا د ہی نہیں پڑتا پا نی کا پہلا ریلہ کب آیا تھا اب سکریننگ ٹیسٹ کے لئے پر چہ سوالات بنا نے کے لئے نہ ما ہرین کی ضرورت محسوس کی جا تی ہے نہ پر چہ بنا نے والوں کے لئے تر بیتی پر وگرام یا اورینٹیشن کی ضرورت محسوس کی جا تی ہے اس و جہ سے غیر تر بیت یا فتہ لو گ ٹیسٹ پیپر یا گائیڈ سامنے رکھ کر پر چہ سوالات کی نقل اتارتے ہیں اور وہی پر چہ سکریننگ ٹیسٹ کے لئے اُمیدواروں کے سامنے رکھا جا تا ہے اس میں ذہانت کے امتحا ن کا کوئی ادنیٰ معیار بھی نہیں ہو تا اس میں یہ بھی نہیں دیکھا جا تا کہ ٹیسٹ کس پوسٹ کے لئے یا کس ادارے میں داخلے کے لئے ہو رہا ہے مثلاًآپ جی آر ای (GRE) کا پر چہ سوالات اٹھا کر دیکھ لیں یا گیٹ (GAT) کا پرچہ سوالات سامنے رکھیں اس میں ذہا نت اور قابلیت کا امتحا ن ہو تا ہے آئی ایس ایس بی (ISSB) کے سکریننگ ٹیسٹ کے پر چہ دیکھ لیں آپ کا جی خوش ہو جا ئے گا کہ کس مہا رت سے سوالات مر تب کئے گئے ہیں؟ آغا خا ن یو نیورسٹی کا پر چہ سوالات کھو لیں تو جا نچ پڑ تال کا حسین امتزاج ملے گا آپ کا دل گوا ہی دے گا کہ اس پر چے کی مدد سے جو چھا نٹی ہو گی اس میں بہترین صلا حیت اور قابلیت کے اُمیدوار منتخب کئے جا ئینگے ان کے مقا بلے میں آپ خیبر پختونخوا کی سر کا ری اور نجی ایجنسیوں کے مر تب کر دہ پر چہ سوالات دیکھینگے تو آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائینگے کہ یہ کس طرح کی سکریننگ ہے؟ مثلاً سبجیکٹ سپیشلسٹ اور سپا ہی کی پوسٹوں کے لئے ایک ہی پر چہ آتا ہے، کمپیوٹر اپریٹر، انگریزی کے لیکچرر اور ڈرائنگ ما سٹر کے لئے ایک ہی پر چہ ہے، پر چے کو دیکھ کر آپ کو یقین ہو جا تا ہے کہ کسی دفتر کے سپرنٹنڈنٹ یا سیکشن افیسر نے اپنے نا نا یا ساس کی لکھی ہوئی امدادی کتاب، گائیڈ یا ٹیسٹ پیپر کے چند اوراق کو اٹھا کر پر چے میں منتقل کیا ہے بسا اوقات ایسا بھی گما ن ہو تا ہے کہ با بو صاحب نے کتابوں کی بڑی دکا ن میں بیٹھ کر الما ریوں کی طرف دیکھتے ہوئے پر چہ تیا رکیا ہے کہ کونسی کتاب کس نے لکھی ہے اور اور کونسی کتاب کس نے چھا پی ہے یا کونسی کتاب کس سال شائع ہوئی ہے؟ پورے پر چہ سوالات میں ذہا نت اور قابلیت کا دور دور تک پتہ نہیں لگتا ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے سسٹم کا ازسر نو جا ئزہ لیا جا ئے کسی بھی سکریننگ ٹیسٹ کا مقصد واضح کر کے ما ہرین کے ذریعے پر چۂ سوالات مر تب کیا جا ئے تاکہ اُمیدوار وں کے معیار تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی ذہا نت کو بھی چانچنے کا موقع میسر آجا ئے ایسا نہ ہو کہ ٹیسٹ میں اے گریڈ لینے والا چار امتحا نا ت میں سیکنڈ ڈویژن کی حد عبور کرنے میں نا کام ہو چکا ہو، اور شروع سے آخر تک اے گریڈ لینے والا امیدوار آپ کی چھا نٹی میں ہاتھ ہی نہ آئے ضروری نہیں کہ جا پا ن کے 20جزیروں کے نا موں کا رٹہ لگا نے والا انفارمیشن ٹیکنا لو جی کا ما ہر ہو، یہ بھی ضروری نہیں کہ سنسکرٹ اور ہندی یا پنجا بی کی 10کتا بوں کے نا م جا ننے والا انگریزی کا بہترین لیکچرر یا سکول کا بہترین ڈرائنگ ما سٹر ثا بت ہو جا ئے پہلے مقصد کو سامنے رکھا جائے پھر ما ہرین کے ذریعے اس مقصد کے لئے پر چہ سوالات مر تب کرائے جائیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو پورے سسٹم کو لپیٹ کر بورڈ اور یو نیورسٹی امتحا نا ت کے نمبروں پر انحصار کیا جا ئے۔