یہ بات دلچسپ اور عجیب ہے کہ1943میں چترال کے علماء دہلی میں قائداعظم محمد علی جناح،جواہر لال نہرو،نوابزادہ لیاقت علی خان اور مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کرکے تقسیم ہند اور انگریزوں کی غلامی سے آزادی پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔دارلعلوم دیوبند،مدرسہ امینیہ دہلی اور ہندوکش کے بلند وبالا پہاڑوں میں گھری ہوئی ریاست چترال کا بے وسیلہ طالب علم؟دیکھنے میں یہ مشکل لگتا ہے مگربیسویں صدی میں چترال کی سابق ریاست کے سینکڑوں طالب علموں نے اس سوال کا عملی جواب ڈھونڈلیا ان میں بعض علی گڑھ میں بھی داخل ہوئے،سہارن پور میں بھی کسب فیض کیا مولانا شبلی کی ندوۃ واالعلماء سے بھی تعلیم حاصل کی بعض طالب علم آگرہ اور بھوپال تک گئے۔مثلاًشیانِ علم اچھی خاصی تعداد میں جموں اور سری نگر سے بھی تعلیم حاصل کی۔قاضی محمد نعیم شاہ کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر تقسیم ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے والے چترالی علماء میں انہوں سب سے لمبی عمر پائی۔1915میں آپ نے چترال کے ریاستی دارالخلافہ کے قریبی گاؤں اورغوچ میں آنکھ کھولی آپ کے ماموں مولانا عبداللہ بخاری نامور عالم دین تھے۔شجاع الملک کی حکومت تھی جنہوں نے41سال حکومت کی۔چترال کے مختلف دیہات جغور،بروزایون اور جنگ بازار میں جید علماء کرام نے اپنے گھروں میں مدرسے کھولے ہوئے تھے قاضی محمد نعیم شاہ کی ابتدائی تعلیم انہی مدرسوں میں ہوئی فنون اور فقہ کی ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد20سال کی عمر میں آپ نے ہندوستان کاسفر کیا۔پہلے دارلعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔تاہم2سال بعد چترال کے دوسرے طالب علموں کی ترغیب پر آپ نے مدرسہ امینیہ دہلی کا رخ کیا۔جو مفتی کفایت اللہ کا مشہور مدرسہ تھا۔چترال کے بعض علماء مثلاً قاضی حضرت الدین،مولانا محمد طیب،مولانا شیخ الاسلام وہاں سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے مفتی عبدالدیان اور بعض دیگر ہم عصر علماء وہاں زیر تعلیم تھے۔سند حاصل کرنے کے بعد آپ نے درس وتدریس اور امات وخطابت کے حوالے سے دہلی میں قیام کیا۔1940کے بعد تحریک آزادی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئی تو چترال کی ریاست سے تعلق رکھنے والے علماء نے تحریک آزادی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ان ملاقاتوں میں قاضی محمد جہاں خان،قاضی محمد وزیر،مولانا امیر خان کے ہمراہ قاضی محمد نعیم شاہ بھی شریک ہوتے تھے۔چنانچہ وقفے وقفے سے مولانا ابوکلام آزاد،جواہر لال نہرو،سردار پٹیل،نوابزادہ لیاقت علی خان،نواب بہادریار جنگ اور قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ان ملاقاتوں میں ریاست چترال کے مستقبل کا ذکر بھی ہوتا تھا۔ریاست کے اندر سیاسی بیداری بہت کم تھی۔اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی،ریاست کا حکمران مسلم لیگ کا حامی تھا۔اُ س کے قریبی رشتہ دار،بھائی،چچا اور عمائیدن کی اکثریت کانگریس کی حامی تھی دلچسپ صورت حال یہ تھی کہ چترال کے تمام علماء مسلم لیگ کے حامی تھے۔مولانا آزاد نے قاضی محمد جہاں خان سے ایک بار پوچھا یہ کیا بات ہے کہ پورے ملک کے علماء ہمارے ساتھ ہیں چترال کے علماء جناح کا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟ قاضی صاحب نے برجستہ جواب دیا ہم سادہ لوح لوگ ہیں ایک طرف گاندھی ہے دوسری طرف جناح ہے اس لئے ہم گاندھی کی جگہ جناح کا ساتھ دیتے ہیں۔مولانا آزاد نے پوچھا کیا میں تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟قاضی صاحب نے کہا ہم آپکو بھی جناح کے ساتھ مل جانے کی دعوت دیتے ہیں اس پرمولانا آزاد مسکرائے اور کہا واقعی تمہاری سادہ لوحی نظر آرہی ہے،نہرو کے ساتھ ملاقات میں ریاستی نظم ونسق کا معاملہ اُٹھایا گیا اُنہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد ریاستیں ختم ہوجائینگی۔ریاستی جبر نہیں رہے گا۔قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا وقت لینا بڑا مشکل تھاوقت ملا تو شرط یہ تھی کہ 10منٹ سے زیادہ وقت نہیں ملے گا۔ملاقات میں قاضی محمد وزیر کے پاس میتر چترال مظفرالملک کا خط تھا۔خط کوپڑھ کر قائداعظم نے کہا میتر کو میں الگ خط بھیجوں گا۔ان کو بتاؤ کہ پاکستان بننے کے بعدریاستوں کو اندرونی خودمختاری کے ساتھ مکمل تحفظ دیاجائے گا۔اگرچہ 10منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔مگر ملاقات آدھ گھنٹہ جاری رہی۔مولانا امیر خان نے1946کے انتخابات اور مسلم لیگ کی ممکنہ حکمت عملی کا تذکرہ چھیڑا قائداعظم نے کہا مسلمان ووٹر ہرحال میں ہماراساتھ دینگے ہندوووٹرکو ہم اپیل بھی نہیں کرتے قاضی صاحب کا مدرسہ دہلی کے نواح میں چتلی قبر کی جامع مسجد میں قائم تھا اور اسی جگہ چترال کے علماء یکجا ہوا کرتے تھا۔آپ کے ماموں زاد بھائی عنایت اللہ بخاری بھی دہلی میں تھے۔قیام پاکستان کے4ماہ بعد قاضی محمد نعیم شاہ نے عنایت اللہ بخاری کو ساتھ لیکرلاہور کی طرف سفر کیا۔لاہور سے پشاور آکر یہاں عنایت اللہ بخاری فوج میں بھرتی ہوئے قاضی صاحب نے سٹینڈرڈ ہائی سکول پشاور شہر میں ملازمت اختیار کی۔1950میں آپ کو میزان شرعیہ چترال میں قاضی مقرر کیا گیا1969میں ریاست کوختم کرکے میزان شرعیہ کا ادارہ بند کیا گیا ار قاضیوں کو سکولوں میں معلم بناکر بھیجدیا گیا1976میں آپ نے محکمہ تعلیم سے ریٹائرمنٹ لے لی اور بقایا زندگی دعوت وتبلیغ میں گذاری۔1980میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد آپ نے اندورن ملک اور بیرون ملک کئی تبلیغی سفر کئے۔آپ کے تین بیٹے ہیں محمد اسحاق،محمد اسرار اور عبدالحئی آپ کا پوتا مولانا محمد الیاس جمعیتہ العلمائے اسلام کے فعال کارکن ہیں۔2015سے2019تک تحصیل ناظم کے عہدے پر فائز رہے۔آپ کو نواسا امتیاز الدین ہائی سکول میں سائنس ٹیچر ہے۔آپ کا بھانجا محمد زمان1965میں میرے استاد تھے۔آپ بھی بقید حیات اور صحت مند ہیں۔قاضی محمد نعیم شاہ کی وفات سے چترال میں مفتی کفایت اللہ ؒکے شاگردوں کاباب بندہوگیا ہے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات