داد بیداد۔۔دوا وں کی قیمتیں۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

شعبہ صحت کے لئے وزیر اعظم کے معا ون خصو صی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ صحت کا شعبہ مو جو دہ حکومت کی پہلی تر جیح ہے اور ہم اس شعبے میں عوام کو بہترین سہو لتیں دینے کے لئے پر عزم ہیں 2013کے الیکشن سے پہلے پا کستان تحریک انصاف نے صحت کے شعبے کے لئے جو ٹا سک فورس قائم کی تھیں اُس کی رپورٹوں میں بھی بعض انقلابی اقدامات کی نوید سنا ئی گئی تھی اس وقت حکومت کے سامنے جو بڑا مسئلہ ہے وہ سر کاری ہسپتا لوں میں بنیا دی سہو لیات کی فرا ہمی کے ساتھ ساتھ دواوں کی قیمتوں کو منا سب، معقول اور قا بل بر داشت سطح پر مستحکم رکھنے کا مسئلہ ہے اس وقت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتا لوں میں اہم شعبے بند کئے گئے ہیں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے بیسک ہیلتھ یونٹ اور رورل ہیلتھ سنٹروں کو پیرا میڈیکل سٹاف کے ذریعے چلا یا جا رہا ہے ہسپتالوں کو ادویات کی فرا ہمی کا سلسلہ معطل ہو گیا ہے اور با زار کے اندر ادویات کی قیمتوں میں 70فیصد سے لیکر 80فیصد تک اضا فہ گذشتہ ایک سال کے اندر دیکھنے میں آیا ہے اگر دیکھا جائے تو شعبہ صحت میں خوب صورت نا موں کے ساتھ بڑے بڑے ادارے مو جو د ہیں لیکن کام کوئی نظر نہیں آتا پاکستان میڈیکل انیڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) ہے مگر ڈاکٹروں کے لئے ضا بطہ اخلاق اور میڈیکل کی تعلیم میں اخلاقی پہلو اب تک دیکھنے میں نہیں آیا ایک حلف نا مہ تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا ہے ہیپو کر ٹیک اوتھ (Hippocratic oath) کے نام ڈاکٹروں کا حلف نا مہ بہت مشہور ہے یہ حلف یونا نی معا لج بقراط کے نام سے منسوب ہے جن کا زمانہ 377-460قبل از مسیح تھا ان کے اصو لوں میں اہم اصول یہ تھے کہ مریض کے علاج میں معا لج ذا تی مفاد کو نہ دیکھا جائے، مریض کی راز داری کو ہر حال میں بر قرار رکھا جائے کسی بھی مرض کی تشخیص کے بغیر دوا نہ دی جا ئے نیز دوا کی مقدار ضرورت سے رتی برا بر زیا دہ نہ ہو پوری دنیا میں ڈا کٹروں کا یہ حلف نا مہ اب تک بر قرار ہے پا کستان میں اس کو ختم کر دیا گیا ہے ہمارے ہاں ہیلتھ سیکٹر ریفامز کا پورا شعبہ ہے مگر کام کوئی نہیں صو بائی سطح پر ہیلتھ ریگو لیٹری اتھارٹی (HRA) ہے وفا قی سطح پر ڈرگز ریگو لیٹری اتھارٹی آف پا کستان (DRAP) کے نام سے بہت بڑا سفید ہاتھی نظر آرہا ہے فائدہ کوئی نہیں سچ پو چھیئے تو دوا وں کی قیمتوں میں مو جودہ اضا فہ دو وجو ہات سے ہوا ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ دوائیں بنانے والی کمپنیوں نے DRAPکے ذریعے 35روپے کی دوا 680روپے کی لگائی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو پہلے ہسپتا لوں کے لئے کوئی تخفہ دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ملتا تھا مثلاً مائیکرو سکوپ، سٹیتھہ سکوپ، قلم دان، قلم یا اس طرح کی کوئی چیز آتی تھی نیز بین لاقوامی کانفرنسوں میں جدید تحقیق کے نتا ئج سے استفادہ کے لئے ڈاکٹروں کو ٹکٹ دیئے جا تے تھے اب ڈاکٹروں کو قیمتی گاڑی، یا گاڑی کی قیمت ادا کی جاتی ہے بیرون ملک دورے بھی اب ریسرچ کے لئے نہیں بلکہ سیر سپاٹے کے لئے ہوتے ہیں جن پر دوا ساز کمپنیاں کروڑوں روپے لگا تی ہیں اور یہ رقم ادویات کی قیمتوں میں ڈال کر مریضوں کی جیبوں سے وصول کی جا تی ہے جن لو گوں کو یورپ، امریکہ اور چین جا نے یا وہاں رہنے کا اتفاق ہو ا ہو وہ لوگ جانتے ہیں کہ ان ملکوں میں کیمسٹ اور ڈر گسٹ کی دکان پر سٹیشنری کا سامان، کیمروں کے لئے فلم،فوٹو سٹیٹ وغیر ہ کی سہو لتیں ملتی ہیں کیونکہ ادویات کے کاروبار میں منا فع بہت کم ہے دوائیں مہنگی ہونے کی ایک وجہ برانڈ نا موں والی مصنو عات بھی ہیں مثلا ً پیر سیٹا مول 20سے زیا دہ برانڈ ناموں میں دستیاب ہے اور ہر برانڈ کی الگ قیمت ہے اس طرح Ciprofloxacineنامی دوا 50سے زیادہ ناموں میں دستیاب ہے ہر نام کی الگ قیمت ہے جو فارما سیو ٹیکل کمپنی دوا بنا تی ہے اس کے اصل نام یعنی جنرک نام سے بنائے، اسکا خام مال (Raw material) جاپان، ڈنمارک، انڈیا، چائنا یا آسٹریلیا وغیرہ سے ایک ہی قیمت پر آتا ہے اگر 35روپے کی دوا پر پیکنگ سے لیکر پرو مو شن،ڈاکٹر،DRAP،ہو ل سیلر اور ریٹیلر کے منا فع تک مزید 35روپے کا خر چہ آتا ہے تو کمپنی کا منا فع ملا کر یہ دوا 95/روپے میں دستیاب ہو نی چاہئیے اب اس کی قیمت ایک کمپنی 110روپے رکھتی ہے دوسری کمپنی 680روپے لگا تی ہے ڈاکٹر اگر نسخے میں 110روپے والی دوا لکھے تو تنخوا یا فیس کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا اگر 680روپے وا لی دوا کے ایک ہزار نسخے لکھے تو 30لاکھ کی گاڑی آجا تی ہے اس طرح دوا وں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں ڈاکٹر ظفر مر زا کو اللہ تعا لیٰ نے مو قع دیا ہے وہ چا ہیں تو دو کاموں کے ذریعے صحت کے شعبے کو تحریک انصاف کے مطلوبہ معیار پر لا سکتے ہیں صو بائی سطح پر اس شعبے کو تین الگ الگ محکموں میں تقسیم کر کے تین سکر ٹریوں کی ما تحتی میں دیدیں صحت کی تعلیم کا پو را محکمہ الگ ہو،ضلعی سطح کے ہسپتا لوں کا محکمہ با لکل الگ ہو اور پو لیو جیسے امراض کا محکمہ ایسا ہو جو وبائی امراض پر قا بو رکھے، بین لاقوامی اداروں کو سہولیات دے دے اور دواوں کی قیمتوں کے ساتھ دوا وں کے معیار کو بھی دیکھے دوسرا کام یہ کیا جائے کہ وفا ق کی سطح پر DRAPکے ذریعے دوا وں کے برانڈ نا موں پر پا بندی لگا ئی جائے صرف جنرک ناموں سے ادویات آنی چا ہئیں تاکہ مریضوں کا استحصال نہ ہو میر تقی میر نے کیا بات کہی تھی ؎
الٹی ہو گئیں سب تد بیریں نہ کچھ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمار ی دل نے آخر کام تمام کیا