داد بیداد۔۔قلمدان کا قضیہ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

وفاقی وزیر مملکت برائے ریو نیو حماد اظہر کو ریو نیو ڈویژن کے وفا قی وزیر کا قلمدان دو دن کے لئے ملا تھا انہوں نے حلف اٹھا یا ابھی دفتر نہیں سنبھالا تھا کہ قلمدان واپس لے لیا گیا اب اخبارات، ٹیلی وژن اور سو شل میڈیا پر اس کا غلغلہ ہے کہ دیا کیو ں تھا واپس کیوں لیاگیا؟ اخباربین حلقے جانتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم یو سف رضا گیلانی نے صبح 10بجے حکمنا مہ جاری کیا کہ ملکی سلا متی کا بڑا ادارہ وزیر اعظم کے ما تحت ہو گا مگر اس حکم کی سیا ہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سہ پہر 3بجے دوسری خبر آگئی خبر یہ تھی کہ وزیر اعظم نے اپنا حکم واپس لے لیا ہے اسپر بھی دلچسپ تبصرے ہوئے تھے ایک صا حب نے لکھا تھا کہ اوپر وا لوں نے وزیر اعظم پر دباؤ ڈال کر حکم واپس لینے پر مجبور کیا اس کے جواب میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفا دار بننے وا لوں نے لکھا تھاکہ یہ وزیر اعظم کے با اختیار ہونے کی نشانی ہے جب چا ہے حکم جاری کرے جب چا ہے حکم واپس لے لے یہی تو اصل آزادی ہے اس آزادی سے آپ وزیر اعظم کو بھلا کیوں محروم رکھنا چاہتے ہیں؟ سچ پو چھیئے تو قلمدان کا مسئلہ ہی کچھ ٹیڑ ھا سا ہے اور ہر حکومت میں ٹیڑ ھا رہا ہے اس لئے بھٹو کی کابینہ میں ان کے قریبی دوست خور شید حسن میر کا عہدہ وزیر بے قلمدان کا تھا وہ کا بینہ کے وزیر تھے ان کو وزیر زراعت یا وزیر صنعت کی جگہ وزیر بے قلمدان لکھا جاتاتھا خیبر پختونخوا کی ایک حکومت نے وزیر وں میں قلمدان تقسیم کرنے کی خا طر بعض محکموں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے الگ الگ قلمدانوں میں بانٹ دیا مثلاً زراعت کے محکمے سے مویشی بانی کا الگ قلمدان نکا لا گیا جنگلات کے محکمے سے پرندوں، چرندوں اور درندوں کا ایک اور قلمدان پیدا کر کے اس کا نام وائلڈ لائف رکھ دیا گیا اس محکمے کے ایک وزیر کو ایک گیم ریزرو کا دورہ کرا یا گیا تو اُس نے مار خور کے ریوڑ کو دیکھتے ہی بندوق تان لی اور فائر کھول دیا جنگلات کے محکمے سے ما ہی پروری کو اور زراعت کے محکمے سے ادمدادِ باہمی کو الگ کرکے دو نئے قلمدان بنائے گئے تا کہ وزیر وں کی فوج ظفر مو ج کو کھپا یا جا سکے، ایک زمانے میں پرائمری تعلیم کا قلمدان الگ کیا گیا تھا اور ہمارے صو بے میں یہ قلمدان جس معزز رکن اسمبلی کو دیا گیا وہ نا خواندہ تھا پرائمیری تعلیم کے فروغ کے لئے جو مہم چلا ئی جا تی تھی اس مہم میں وزیر مو صوف زبان حال سے پکا ر تے تھے ”دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو“ قلمدان کا ایک دلچسپ چکر وفاقی وزارت قانون میں بھی چلا یا گیا جہاں ایک اہم ایم این اے کو قلمدان دینے کے لئے پا رلیمانی امور کو وزارت قانون سے الگ کیا گیا اور اب انسانی حقوق کو قانون کی وزارت سے الگ کیا گیا ہے تا کہ قلمدان بر آمد ہو اور کسی مستحق کے حو الے کیا جائے اب وزارت خزانہ کے حصے بخرے ہو رہے ہیں فی الحا ل ریو نیو، محصو لات یعنی آمدن کو وزارت خزانہ سے الگ کرنے کی مہم چل رہی ہے سابق گورنر سٹیٹ بینک شمشاد اختر کو معا ون خصو صی کے طور پر لا یا گیا ہے اب اس کے لئے بھی محکمہ ڈھونڈ لیا جا ئے گا یا دش بخیر اسد عمر بجٹ اجلاس سے پہلے وزارت خزانہ سے مستعفی ہوگئے تو ان کے جانشین عبدا لحفیظ شیخ پا ر لیمنٹ کے رکن نہیں تھے اس لئے ان کو خزا نے کے لئے وزیر اعظم کا مشیر مقرر کیا گیا مگر مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ پار لیمنٹ کے اندر ایک غیر منتخب شخص بجٹ پیش نہیں کر سکتا اس کا یہ حل تجویز ہو اکہ وزیر مملکت حماد اظہرکے ذریعے اسمبلی میں بجٹ پیش کیا گیا اور بجٹ پا س ہوا تو اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ وزیر مملکت کو
پوری وزارت کا قلمدان دیا جائے جب ایساہوا تو حماد اظہر کو پورے اختیا رات کے ساتھ ریو نیو کا وزیر بنا یا گیا لیکن اُن کے حلف اٹھا نے کے بعد پتہ چلا کہ عبد الحفیظ شیخ نا راض ہو گئے ہیں اس لئے چند گھنٹوں کے بعد یہ حکم وا پس لیا گیااب حماد اظہر خو ش ہونگے کہ ”ایمان بچ گیا میرے مو لا نے خیر کی“ مگر بات اس قدر سادہ بھی نہیں حماد اظہر چپکے سے گھر نہیں جائینگے بلکہ پردہ نشینوں کو لیکر جائینگے قلمدان کا قضیہ آساں قضیہ نہیں اس پر کئی حکومتیں گھر بھیجدی گئی ہیں اس وقت بھی نئے قلمدان کے انتظا ر میں کئی اہم شخصیات بیٹھی ہوئی ہیں ایک انار 100بیمار وا لا معا ملہ ہے اس معا ملے کو جتنا سلجھا یا جا تا ہے اتنا ہی معا ملہ اُلجھاؤکا شکا ر ہو تا ہے ؎
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے تو بہ
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہو نا