پی ڈی سی چترال میں پھر ٹرئینگ پہ حاضر ہوئے۔اس بار اساتذہ میم منیرہ اور میڈیم یاسمین محمد ہمارے اساتذہ تھیں دونوں اپنے کام کے ماہرین ہیں۔۔انھوں نے بڑا کام کیا ہے۔منیرہ امریکہ سے پڑھی ہیں ان کو مغرب کا بھی بڑا تجربہ ہے۔ہماری تربیت کا موضوع inclusive learning تھا۔انھوں نے کلاس روم کے اندر اور باہرexclusionاور segregationپر سیر حاصل بحث کی۔ہمیں سمجھانے کی کوشش کی۔۔ہماری ناسمجھی خندہ پشانی سے برداشت کرتے رہے۔۔انھوں نے بڑے دلسوز اور دل گدز اندازمیں اس منظر نامے کو پیش کرنے کی کوشش کی۔کہ معاشرے میں وہ بچے جن کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ان پرہم توجہ نہیں دیتے۔ان کو ہماری رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہم نہیں کر سکتے۔۔ان کے والدین غریب ہیں ان کی ہم مدد نہیں کر سکتے۔ان کے وہ معذور بچے جو بے توجہی کی وجہ سے زیور تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ان بچوں کے بھی حقوق ہیں۔ان کی بھی اہمیت ہے۔وہ بھی گلشن انسانیت کے پھول ہیں۔ان کے چہرے پر بھی حوصلہ افزائی کی چمک اترنا چاہیے۔چاہیے کہ وہ بھی علم کی روشنی سے منور ہو جائیں۔استاد ان کوکلاس روم لے آئے۔ان پرخصوصی توجہ دے۔ان کی عزت نفس کا خیال رکھے۔ان کو پڑھائے۔یہ اس کا فرض بنتا ہے۔جو اپنے آپ کو استاد کہتا ہے یہ اس کا فرض ہے کہ قوم کا درد اُٹھائے پھرے۔۔آخر اُستاد ہی تو ہے۔وہ قوم کو تعلیم یافتہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔قوم کو معیاری تعلیم سے آراستہ کرے۔ایک تعلیم یافتہ قوم ہی دنیا میں آگے بڑھ سکتی ہے۔اگر کسی سکول میں معذور بچوں کو رکھنے کی سہولیات نہیں ہیں تو تم گنجائش پیدا کرو۔ان کو اُٹھا کے لاؤ ان کو وہاں پہ رکھنے کا بندوبست کرو تاکہ قوم کا کوئی بچہ معذوری کے ساتھ بھی علم کی روشنی سے محروم نہ ہو۔میم منیرہ اور میم یاسمین کی باتیں دل کو چھوتیں تھیں۔انداز بڑا جذباتی تھا۔ہمیں بھی لگ رہا تھا کہ ہم ضرور ایسا کریں گے اور آج کے بعد کوئی بچہ خواہ اس کو جسمانی معذوری ہو یا ذہنی معذوری وہ علم جیسے دولت سے محروم نہ رہے گا۔لیکن درمیان میں ایک من چلے شریک تربیت استاد نے کھڑے ہو کر ایک سوال داغ دیا جس نے پوری محفل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔۔سب سوچ میں پڑ گئے۔ان کا سوال تھا۔۔میم سب کچھ ٹھیک ہے۔۔سوال میرا یہ ہے۔۔کہ ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ بھی غیر سرکاری بڑے بڑے تعلیمی ادارے ہیں۔۔جن کے اندر سہولیات بھی ہیں وہ ”کماتے“ بھی بہت ہیں لفظ ”کمانے“ پر اس نے زور دیا اس سمے اس کے چہرے پہ افسردگی چھاگئی۔ان کا نتیجہ بھی اچھا آتا ہے۔۔لفظ ”نتیجہ“ پہ اس کی ہنسی پھوٹتے پھوٹتے رک گئی۔سب بڑے اور حکومت خود کہتی ہے کہ ان اداروں کا نتیجہ ٹھیک آتا ہے۔۔وہ قوم کو معیاری تعلیم دلاتے ہیں اور سرکاری سکولوں نے قوم کا بیڑا عرق کیا ہے۔سرکاری ادارے۔۔اس نے مسکرا کر معذرت کے ساتھ کہا۔۔میم!سرکاری سکولوں میں غیر سرکاری اداروں جیسا ماحول نہیں۔مثلا میم! سرکاری سکولوں میں داخلے کے لیے کوئی معیار نہیں۔۔کوئی بھی داخلہ لے سکتا ہے خواہ وہ ذہنی لحاظ سے کتنا ہی پسماندہ کیوں نہ ہو۔استاد سے تربیت کا ہاتھ بھی کھینچنے کو کہا جاتا ہے۔۔استاد بچے کی کسی کوتاہی پہ اس کو سرزنش نہیں کر سکتا۔سکول سے نکال نہیں سکتا۔امتحان میں فیل نہیں کر سکتا۔خواہ وہ صفر نمبر ہی کیوں نہ لے۔یہ جملہ کہتے ہوئے بھی سوال کرنے والا افسردہ ہو تا ہے۔۔پھر کہا جاتا ہے۔۔۔اور ہاں میم!ان اداروں کے اساتذہ کے کام کو بھی کوئی نہیں دیکھتا۔ایک استاد کتنی محنتی ہے۔۔ قابل ہے۔۔کوئی نہیں دیکھتا۔ایک کام بالکل نہیں کر رہا۔۔ اس سے کوئی پوچھتا نہیں۔اور اوپر سے یہ دباؤ ہے۔۔کہ بس جو تجھے ملے اس کو سکول کے اندر لے آؤ اور اس کو معیاری تعلیم دے دو۔۔میم!یہ لمبی چوڑی بحث ہے ایسا نہ ہو کہ اس میں الجھ کر میں اپنا سوال بھول جاؤں۔۔میم! میرا سوال یہ ہے کہ سارے پبلک سکول،یہ بڑے بڑ ے غیر سرکاری تعلیمی ادارے جن کا بڑا نام ہے۔جن میں نمل سیریز،کیڈٹ سیریز،آغا خان ایجوکیشن سروس اقراء سیریز اپنے اداروں میں کتنے ان بچوں کو داخلہ دیتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔۔وہ جسمانی معذور ہوتے ہیں۔۔وہ ذہنی معذور ہوتے ہیں۔۔ وہ غریب ہوتے ہیں۔۔ان کافیس دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ہاں مانتا ہوں اگر کوئی بہت ذہین ترین ہو اس کوغیر سرکاری ادارے مفت میں اٹھاتے ہیں کہ یہ موتی کل جاکے اس ادارے کی شہرت کا باعث بنے۔لیکن میم!معاشرے کے جس طبقے کی آپ بات کر رہی ہیں ان لوگوں نے کیا اس طبقے کی کوئی فکرکی ہے حالانکہ یہ لوگ اسی سر زمین میں رہ کر تعلیمی اداروں کے نام پر عربوں کماتے ہیں۔سوال کرنے والا سر جھکاکے بیٹھتا ہے۔۔میم یاسمین سرد آہ بھر کر صرف اتنا کہتی ہے۔۔”نہیں بیٹا!حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔لیکن ہمیں اپنا چراغ جلاناہے اور جلاتے رہنا ہے“۔۔۔میم منیرہ سوال کرنے والے کے چہرے کو بغور دیکھ کرکہتی ہے۔۔”یہ نقار خانہ ہے اور تم طوطے ہو“۔۔۔ سوال کرنے والے کے خیالات کا توسن دوڑ کر وہاں پہنچتا ہے جہان پہ فخر موجوداتﷺ نے سو سرخ اونٹوں کا ذکر فرمایا تھا۔۔۔۔بحث یہاں پہ ہی رہ جاتی ہے۔۔۔ کیونکہ چائے کا وقفہ ہو گیا تھا اور ساتھیوں کو کڑک چائے ستا رہی تھی۔۔۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات