میں پاک سر زمین کا باشندہ ہوں۔مجھے پتہ ہے کہ میرا یہ پاک ملک کتنی قربانیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے۔مجھے اس کے بارے میں پتہ ہے کہ یہ میری پہچان ہے۔میرا وجود اس کے وجود سے وابستہ ہے۔اس کی حفاظت مجھ پہ فرض ہے۔اس کی آبرو میری آبرو ہے۔اس کے بہتے دریا،اس کے فلک بو س پہاڑ،اس کے چمکتے گلیشرز،اس کے لق وق صحرا،اس کے لہلہاتے کھیت،اس کے ٹھنڈے چشمے،اس کی جھیلیں،اس کے سمندر میرے ہیں۔اس کی مصروف سڑکیں،اس کے دھواں دیتے کارخانے،اس کی فراٹے بھرتی کاریں،اس کے جدید ہتھیار،اس کی ناقابل تسخیر دفاع سب پہ مجھے فخر ہے۔اس کے کسان، مزدور،محنت کش،آفسر شاہی،اساتذہ،طلباء سب سے مجھے محبت ہے۔میں اس کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہوں۔میں اس کو پر امن،خوشحال اور آزاد دیکھنا چاہتا ہوں۔یہ میری آرزو ہے۔جستجو ہے۔۔تب میرا کوئی آرٹیکل آئے۔جس میں ہدایات ہوں۔نصیحتیں ہوں۔شاباشیاں ہوں۔آفرین ہو۔میں اطمنان کا اظہار کروں۔میں شکر کا اظہار کروں۔مجھے کہیں بھی کوئی کوتاہی نظر نہ آئے۔میری پوری قوم جاگ رہی ہو۔سب ایک عزم کے ساتھ اس دھرتی کی خدمت کے لئے اپنے اپنے گھروں سے نکل رہے ہوں۔میری سڑکیں آباد ہوں۔میری پولیس مطمین ہو۔میرے حوالات میں کوئی ملزم نہ ہو۔میرے جیل میں کوئی مجرم نہ ہو۔میری عدالتوں میں کوئی شکایت درج نہ ہو۔کوئی انصاف کی دھائی دینے والا نہ ہو۔میری مسجدوں سے دعاؤں کی صدائیں بلند ہوں۔میں اخبار اٹھاؤں تو سب خیر خبر ہوں۔میرے ہسپتالوں میں امن ہو۔میرا کوئی بیمار کراہ رہا نہ ہو۔اگر واقعی کوئی بیمار ہے تو میرا ڈاکٹر اس کے سرہانے مستعد کھڑا ہو۔میرا استاد بڑے جذبے اور شوق سے اپنے اداروں کی طرف رواں ہوں۔میرے سب بچے اپنے گھرکے کام کر چکے ہوں۔ان کے بستوں میں ان کی کتابیں،قلم اور کاپیاں موجود ہوں۔میری کوئی بیٹی دوپٹے سے محروم نہ ہو۔اس کی آنکھوں میں غربت کی آفسردگی نہ ہوں۔میں یہ سب کچھ لکھوں۔۔میرا پڑھنے والا خوش ہو جائے۔کہہ دے کہ اس بندے کے الفاظ عضب کے شرین ہیں۔ان میں کشش ہے۔ حوصلہ ہے۔خوشخبری ہے۔شکر ہے اطمنان ہے۔یہ محب الوطن ہے۔یہ اچھا ہے بہت اچھا۔میرا آرٹیکل تریاق کا کام کرے۔سب کے دل میں اس دھرتی سے محبت کا جذبہ پیدا کرے۔اس کے جنرل کہدے۔۔بہت ہی اچھا لکھا ہے۔اس کے استاد کہہ دے۔زبر دست لکھا ہے۔اس کے ادیب کہہ دیں۔یہ ادب سے باہر نہیں گیا۔اس کے الفاظ خوبصورت ہیں۔اس کے شاعر واہ واہ کہہ دیں۔اس کے باپ کو باپ ہونے،بیٹے کو بیٹے ہونے پہ فخر ہو۔اس کی ماں کو اپنی امومت پہ فخر ہو۔۔اس کی بیٹی کو اپنی بیٹی ہونے پہ ناز ہو۔میرا آرٹیکل سب کو اچھا لگے سب کو مجھ سے ملنے کی آرزو ہو۔سارے اخبارات میرا آرٹیکل چھاپیں۔میرا آرٹیکل ایک عام پاکستانی کا آرٹیکل ہے۔اس کو اپنی سیاست کی فکر نہیں۔اپنے کارخانوں کا خیال نہیں۔اپنی دولت کے کم یا زیادہ ہونے کی جھنجھنٹ نہیں۔اس کو کسی سے دشمنی نہیں۔عناد کینہ نہیں۔اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔کوئی اس کی آنکھوں میں کھٹکتا نہیں۔اس کے نزدیک کو ئی برا نہیں۔اس نے اپنے چیلوں کے ساتھ ملکر کسی کے لیے غلط منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔اس سے کسی نے کسی دوسرے کی شکایت نہیں کی ہے۔اس کو سب سے محبت ہے۔اس کو اس پاک دھرتی سے عقیدت ہے۔یہ ایک عام پاکستانی کا آرٹیکل ہے جو پاک سر زمین کو اللہ کا تحفہ سمجھتا ہے۔اس کی خدمت کو اپنے لئے فخر سمجھتا ہے۔وہ صبح سویرے اُٹھتا ہے۔کیونکہ اس کو کام پہ جانا ہوتا ہے۔یہ اچھا آرٹیکل ہے۔۔اس کے لفظ لفظ سے خوشبو آتی ہے۔اس میں کوئی موت کی خبر نہیں۔کوئی چوری ڈکیتی کی اطلاع نہیں۔کساد بازاری۔قیمتوں کی بڑھوتری،ڈالر کی اڑان کی خبر نہیں۔چھوٹی سیاست پر تبصرہ نہیں۔حکومت کی نااہلی کی تفصیل نہیں۔ایک دوسرے کو گالیاں نہیں۔قحط،خشک سالی،سیلاب وغیرہ کی برُی خبر نہیں۔یہ اچھا آرٹیکل ہے ہر آرٹیکل ایسا ہو۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات