میرا چچا زاد بھائی جان احمد سانبو کمپنی میں اکاؤنٹنٹ ہیں۔۔بڑے ذہین اور تعلیم یافتہ ہیں۔دو دن پہلے اس کے ساتھ نشست ہوئی ایک گھنٹے کی گپ شپ ہوئی۔میں نے کہا جان کوریا کی باتیں مجھے سناؤ۔۔کہا بھائی جان!۔۔وہ کہتے ہیں کہ کام ہمارا مذہب ہے۔۔ہم مذہب مذہب نہیں سمجھتے۔اور کام ایسا کرتے ہیں کہ دیکھتے رہ جاؤ۔۔کم از کم دوسو سال کے لئے سوچتے ہیں۔دیانتدار ہیں۔محنتی ہیں۔خوش خلاق ہیں۔مخلص ہیں۔بحیثیت قوم سوچتے ہیں۔زاتی مفاد کو نہیں سوچتے۔زندگی سیدھی سادی ہے۔پیشہ ور ہیں۔خوددار ہیں۔ایک جوڑا جوتے کی بھی ضرورت پڑے تو اپنے ملک سے منگواتے ہیں۔۔اپنا برانڈ، اپنی صنعت،اپنی چیزیں،اپنی ثقافت،اپنی زبان،اپنی شناخت،اپنی ٹیکنالوجی،سب کچھ اپنا۔انہوں نے لیپ ٹاپ،موبائیل(l.g..samsung)وغیر ہ اپنی زبان میں بنا چکے ہیں ان کی ساری ٹیکنالوجی ان کی زبان میں ہے۔ان کو امریکہ سے سخت نفرت ہے وہ اس کو ہر میدان میں شکست دینا چاہتے ہیں۔ان کو آل اولاد سے محبت ہے لیکن ان کی شناختی کارڈ میں صرف والدہ کا نام ہوتا ہے۔والد کی نسبت سے پہچان نہیں۔زن آزادی ہے۔تربیت کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔استاد کو سزا دینے کا پورا حق ہے۔وہ اس میں آزاد ہے۔ایک چیف انجینئر نے جان احمد کو بتایا کہ ان کے سکول اور کالج میں سزا کا انوکھا تصور تھا۔استاد نے ایک لمبی میز بنایا تھا۔چاروں کونوں میں میخ ٹھونکا تھا۔ہمیں اس پہ چت لٹاتا۔مارتا رہتا۔کوئی بے ہوش ہوتا تو اسی میز کو پکڑ کر ایمبولنس میں ڈالاجاتا اور ہسپتال لے جایا جاتا۔اساتذہ سے ان کو محبت ہی نہیں عقیدت ہے۔استاد کو یاد کرکے و ہ تڑپ اٹھتے ہیں۔ان کی ٹیکنالوجی”ہنڈا“ دنیا بھر میں مشہور ہے مگر و ہ اس کا ذکر نہیں کرتے۔۔اتنا کہتے ہیں۔۔ ہاں ہماری ہے۔۔وہ پاکستان کو پیارا ملک کہتے ہیں اس سے اور ان کے لوگوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ایک بڑے دوست ملک سے خائف ہیں اور کہتے ہیں کہ سادہ لوح ہو اس پہ آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہ کرو احتیاط کرو۔۔وہ موجودہ دور کو سرمایہ کاری کا دور کہتے ہیں اور ان کا نظریہ ہے کہ کسی بھی ملک پر بھروسہ کر نے کی بجائے اپنے آپ کو اس میدان میں آگے لے جانا ہے۔وہ کرپشن کے سخت خلاف ہیں اور معمولی بد عنوانی بھی برداشت نہیں کرتے۔وہ دھوکہ دہی اور جھوٹ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔وہ وقت کے پابند ہیں۔وہ سخت جان ہیں لائف کو انجوائی کرتے ہیں۔موت ان کے نزدیک ایک معمولی واقعہ ہے۔ان میں کچھ بت مت اور عسائیت کے قائل ہیں البتہ عقائد پر عمل نہیں کرتے۔۔ان کے ہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ادارے مضبوط ہیں۔فرائض کی ادائیگی میں سخت ہیں۔خاندان کا تصور نہیں۔۔بچے بڑے ہوتے ہیں لیکن نہ والدین کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے بچے کدھر ہیں اور نہ اولاد کو۔ریاست کی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔تجہیز و تکفین ریاست کے ذمہ ہے۔اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔لہسن،ادرک اور پیاز بھون کر بھی کھاتے رہتے ہیں اور ان کا مشروپ بنا کر بھی پیتے رہتے ہیں۔ چینا سے متاثر نہیں ہیں۔۔ ٹیکنالوجی میں ہمسری کے لئے کوشان ہیں۔ٹنل ٹیکنالوجی اور تعمیرات میں آگے بڑھے ہیں۔ضدی قو م ہیں جو کرنا چاہتے ہیں کرکے دیکھا تے ہیں۔ان کی ز بان جامع ہے پوری کہانی کو ایک لفظ میں سمجھاتے ہیں ان کے حروف تہجی دس سے بیس کے درمیان ہیں۔گرائمر کی کلمو کلمو نہیں۔۔ادب ہے۔۔ لیٹریچر ہے۔میوزک ہے۔تفریح گاہیں ہیں۔کھیلوں میں ہاکی،فٹ بال کے علاوہ جسمانی کھیل،جمناسٹک وغیرہ مقبول ہیں۔گلیمر کے شیدائی ہیں۔چھریرے بدن حسن کا معیار ہے۔پاکستانی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔خود معیاری کام کرتے ہیں اور معیار مانگتے ہیں۔ان کے بارے میں جان احمد سے یہ سب کچھ سن کر مجھے امت مسلمہ کا ماضی یاد آگیا۔۔یہی اوصاف تھے جنہوں نے اس اُمت کو دنیا کا حکمران بنا دیا تھا۔آہستہ آہستہ یہ اُمت ان اوصاف سے محرو م ہوتی رہی اور آج یہ حال ہے۔۔کہ اُمت مسلمہ میں کوئی سائنس اور ٹیکنالوجی کا کوئی معیار نہیں۔کوئی سائنسدان تھیوری پیش نہیں کرتا۔کوئی لیپ بین القوامی معیار کا نہیں۔کسی میدان میں ہم اتھارٹی نہیں۔ہم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ہمارا کام غیر معیاری ہے۔ہماری سڑکیں دو سال بعد ٹوٹ جاتی ہیں۔ہماری عمارتیں گرتی ہیں۔ہمارے پل اُڑ جاتے ہیں۔ہماری آشیائے خردو نوش ناقص ہیں ہماری ادویات زہر ہیں۔ہم گویا کرپشن کے لئے دنیا میں آئے ہیں۔ہمارا کا م بس دوسروں کو برُا بھلاکہنا ہے۔اس کردار کولے کر ہم کسی کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں۔اللہ ہمارے حال پہ رحم فر مائے۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات