دنیا میں جہاں بھی جمہوری نظام ہے وہاں پہ صحت مند اور تعمیری تنقید اور اختلاف کی روایت بھی موجود ہے۔۔ہم مسلمان ہیں ہماری مملکت اسلامی ہے۔۔ اللہ کے نام سے حاصل کی گئی ہے۔۔ہمارا ماڈل اسلام اوراسلامی نظام ہے۔۔ہمارا آئین اور قانون جو بھی کہتا ہو یہ ایک اسلامی جمہوری ملک کا آئین ہے اس پہ ہمیں بلکہ دنیا کے سارے مسلمانوں کو فخر ہے۔۔اسلام میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں بلکہ اختلاف کرنے کی مکمل آزادی ہے مگر اختلاف ہمیشہ مبنی بر حق اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق غلطی کے خلاف رہا ہے۔۔اگر نظام،نصب العین،ریاست کے مفاد کے خلاف،عوام کے مفاد کے خلاف کوئی عمل،حکمران کی ذاتی کوشش اور عرض اور اس جیسے اقدام ہوں تو اس میں اختلافات ہو سکتے ہیں بلکہ اسلام میں ظالم حکمران کے خلاف آواز اٹھانے کو جہاد عظیم کہا گیا ہے۔۔ہمارے اور ہمارے حکمرانوں کے لئے خلیفہ الرسولﷺ کا وہ پہلا خطبہ ایک سند ہے بلکہ پوری دنیا کے جمہوری ممالک کے لئے فار مولا ہے۔۔فرمایا!۔۔”لوگو!مجھے تمہارا امیر مقرر کیا گیا ہے۔اگر میں اللہ کے قرآن اور رسول مہربانﷺ کے لائے ہوئے دین کے مطابق چلوں تو تم پہ میری پیروی فرض ہے اگر میں ان کی پیروی نہ کروں تو تم پہ میرا اتباع لازم نہیں“۔۔۔قربان جاؤں ایسے الفاظ پہ اور ایسی طرز حکمرانی پہ۔۔آج جو بھی حکمران اپنے پہلے خطاب میں کہدے کہ میں آئین و قانون کی پیروی کروں تو تم پہ میرا اتباع لازم ہے اگر نہ کروں تو لازم نہیں۔۔۔میرے خیال میں کوئی ایسا نہیں کہتا البتہ اتنا کہتا ہے کہ آئین کی پاسداری کروں گا۔۔۔آگے اگر نہ کروں تو میرا اتباع نہ کرنا بھول جاتا ہے۔۔۔ہمارے ہاں کلچر یہ رہا ہے کہ ہم بس اختلا ف کرینگے۔۔اگر کوئی کتنا ہی اچھا کام کر رہاہو ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں بھی ہو تو ہم اس پہ تنقید کرینگے۔۔ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اچھا کام کوئی اور کیوں کرے کسی اور کے حصے میں تعمیر کیوں جائے ہم اس کو ”پولیٹیکل کریڈٹ“ کہتے ہیں۔۔”کیش کرنا“ کہتے ہیں اور کیا کیا کہتے ہیں۔۔اس وجہ سے ہم پیچھے چلے جاتے ہیں جمہوری حکومتیں پنپتی نہیں۔۔مفاد پرستی کلچر بن جاتی ہے۔۔انفرادیت کا پودا پھلتا پھولتا ہے۔۔مطلق العنانیت سر اٹھاتی ہے اور عوام پستی جاتی ہیں۔۔جس حکومت میں انصاف کی دھجیاں آڑائی جائیں تو اس کا زوال لازم ہے۔۔ہم مخلص نہیں ہیں۔کوئی نئی حکومت آتے ہی ہم اس کی ناکامی کی پیش گوئیاں کرنے لگتے ہیں بلکہ پیش بندیاں کرنے لگتے ہیں۔۔اس مخالف گروپ کوبڑی ڈھٹائی سے ”مظبوط حزب اختلاف“ کہتے ہیں۔۔میری ناقص رائے میں ”حزب اختلاف“نہیں بلکہ ”حزب ا حتساب“ ہونا چاہیے کہ وہ غلطیوں کی نشاندہی کرے۔۔اصلاح کرنے کی کوشش کرے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں جو کام ہورہا ہو خواب اس کو انجام دینے والا سیاسی حریف ہی کیوں نہ ہو اس کو شاباش دے۔۔اس کی مدد کرے اس سے تعاون کرے۔۔تب ملک کی تعمیرو ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔۔ہمارے ملک میں سیاسی مخالفت ایک تخریبی جنگ کی صورت اختیار کرتی ہے۔۔اس وجہ سے عوام مفت میں پسی جاتی ہیں۔۔کام ادھورے ہوتے ہیں منصوبوں کی تکمیل نہیں ہوتی۔۔سہولیات میسر نہیں ہوتے تب مایوسیاں پھیلتی ہیں۔ملک خداداد کا جمہوری سفر جاری ہے۔۔انتخابات ہوتے ہیں حکومتیں مینڈیٹ لے کے آتی ہیں۔۔اگر کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں تو سیاسی تبدیلیاں آتی ہیں۔۔یہ صحت مند تبدیلیاں ہیں لیکن ان کو قبول کرنا چاہیے۔۔ہماری نئی حکومت بھاری مینڈیٹ لے کے آئی ہے۔یہ حکمران ہمارے ہیں یہ پاکستان کی ناموس ہیں ہمیں ان سے توقعات ہیں اگر وہ اچھے کام کریں تو ہماری جانیں حاضر ہیں لیکن ان کو کا م کرنے دیا جائے۔۔ حسب اختلاف حسب احتساب کا رول کرے۔۔اگر ایک ملک و قوم کا مخلص وزیر اعظم قوم سے اپیل کرتا ہے کہ آو ڈیم بناتے ہیں تو قوم کو چاہیے۔اپنا تن من دھن پیش کرے۔۔ملک ہمارا ہے قوم ہماری ہے وزیر اعظم ہمارا ہے۔۔پھر ڈیم ہمارے ہونگے۔خلوص اور اتفاق میں اللہ برکت دیتا ہے جس زندہ ملت سے ہماری نسبت ہے کیا اس کے ایک فرد نے نہیں فر مایا تھا۔یا رسولاللہ ﷺ میں نے گھر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام کو چھوڑ آیا ہے۔۔ہم نئی دنیا میں جتنا بھی آگے جائیں ہماری نسبت انہی سے ہے۔۔انہی کی صداقت امانت اور دیانت کو لے کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔۔ہماری قوم کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔جب بھی جس کی طرف سے بھی قوم کو پکارا گیا ہے قوم نے لبیک کہا ہے۔۔ایک نے کہا قوم بے شک گھاس کھائیں گے مگر اٹم بم بنائیں گے قوم نے لبیک کہا۔۔کہا گیا۔۔قرض اتارو ملک سنواریں گے۔۔قو م نے لبیک کہا۔۔اب ڈیم بنانے کا عہد کیا جا رہا ہے۔۔ہماری جانیں حاضر ہیں۔۔زندہ قوموں کے راہنما بھی زندہ ہوتے ہیں۔۔وہ اگر شیردل ہوں تو قوم چٹان بن جاتی ہے۔۔اب ہم جمہوریت کے اس دور سے گذر رہے ہیں کہ تنقید کی بجائے اصلاح کی کوشش کی جائے۔۔اختلاف کی بجائے احتساب کیا جائے۔۔کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندھی کرکے درست سمت رہنمائی کی جائے۔۔حزب اختلاف حزب احتساب کا رول ادا کرے تب ہماری ترقی،خوشحالی اور امن ممکن بھی ہے اور انشاء اللہ پائیدار بھی ہو سکتا ہے اللہ ہماری حفاظت کرے۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات