حکومت اور تحریک لبیک میں معاہدہ طے پا گیا، 22 روزہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان

Print Friendly, PDF & Email

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) تحریک لبیک نے حکومت کیساتھ معاہدہ طے پانے کے بعد 22 روزہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کو پرامن طریقے سے گھر جانے کی ہدایت کی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس 12 گھنٹے ہیں جس دوران وہ شہدائکے قل شریف پڑھیں گے اور پھر اپنا سامان سمیٹیں گے جس دوران راولپنڈی اور اسلام آباد کی جیلوں میں قید ان کے کارکنان بھی واپس آ جائیں گے اور پھر پر امن طریقے سے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جائیں گے۔
علامہ خادم حسین رضوی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم صرف نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کی حفاظت کیلئے لاہور سے چلے اور ہمارا سیدھا سادھا مطالبہ تھا کہ جس شخص نے ختم نبوت ﷺ کے قانون میں ڈاکہ ڈالا ہے اس کو بے نقاب کیا جائے۔ اس کو طوالت دی گئی اور کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے، ہمیں ان باتوں کا علم نہیں ہے، پھر ہمارے خلاف عالمی سطح پر پراپیگنڈہ کیا گیا کہ ان کے عزائم بہت خطرناک ہیں اور دہشت گرد گروپ اسلام آباد پر قبضہ کر کے بیٹھا ہے۔ ان لوگوں کے سیاسی عزائم ہیں، یہ لوگ کسی کے کہنے پر آئے، ان کو فنڈز کون دے رہا ہے۔ یہ سارے معاملات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ کسی ایک بات میں بھی صداقت نہیں ہے۔ ہم پر جو الزامات لگے، ان کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خصوصی نمائندے ہمارے پاس بھیجے کیونکہ ہم نے کہا تھا کہ حکومت سے بات نہیں کرنی یہ قاتل ہے جس نے ہمارے بیسیوں کارکنوں کو بلاوجہ شہید کیا ہے اور ملک کے حالات بڑی تیزی سے خراب ہونے کی طرف جا رہے تھے تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اپنی ٹیم بھیجی اور کہا کہ ہم ضامن بنتے ہیں اور آپ کے مطالبات پورے کرواتے ہیں۔
ان کی طرف سے میجر جنرل فیض حمید تشریف لائے اور ہمارا معاہدہ ان کیساتھ ہوا، زاہد حامد کا استعفیٰ ہمارے شہدائکے خون کی قیمت نہیں ہے۔ یہ تو ختم نبوتﷺ کے مسئلے کی وجہ سے اس کا استعفیٰ ہے، ہم اور بھی مطالبات کر سکتے تھے، مگر لوگ کہتے کہ یہ تو حکومت ہٹانے کیلئے آئے ہیں، اس لئے ہم نے کوئی بات نہیں کی، البتہ جتنے بھی ذمہ داران ہیں، جنہوں نے اس جرم میں شراکت کی ہے، ان تمام کو بے نقاب کیا جائے گا اور ان کیخلاف ایف آر بھی درج کی جائے گی اور قانون کے مطابق سزا بھی دلوائی جائے گی۔“
اس موقع پر علامہ خادم حسین رضوی نے حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے معاہدے کی شرائط پڑھ کر سنائیں جن پر عملدرآمد کیا جائے گا، معاہدے کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔
”تحریک لبیک یا رسول، جو ایک پرامن جماعت ہے اور کسی قسم کے تشدد، بدامنی پر یقین نہیں رکھتی، یہ جماعت ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کے قانون میں ردوبدل کے خلاف اپنا نقطہ نظر لے کر حکومت کے پاس آئی مگر افسوس کہ اس مقدس کام کا صحیح جواب دینے کے بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا۔
21 دنوں پر محیط اس کوشش کو اگر بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے تو وہ یہی تھا کہ ہمارے مطالبات پورے کئے جاتے، ہم یقین دلاتے ہیں کہ ذیل میں دی گئی شرائط پر اتفاق ہونے پر ہم ناصرف دھرنا ختم کردیں گے بلکہ پورے ملک میں دئیے گئے دھرنے بھی ختم ہو جائیں گے۔
مطالبہ نمبر ایک
وفاقی وزیر قانون زاہد حامد جن کی وزارت کے ذریعے یہ ترمیم پیش کی گئی، وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی کئے جائیں، تحریک لبیک یا رسول ان کیخلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔
مطالبہ نمبر دو
تحریک لبیک کے مطالبے کے مطابق حکومت پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ئمیں 7B اور 7C کو مکمل متن معہ اردو حلف نامہ شامل کر لیا ہے، ان اقدام کی تحریک لبیک یا بیت کرتی ہے تاہم راجہ ظفر الحق کی انکوائری رپورٹ 30 دن میں منظرعام پر لائی جائے گی اور جو اشخاص بھی ذمہ دار قرار پائے گئے ان پر ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
مطالبہ نمبر تین
6 نومبر 2017ئسے دھرنا کے اختتام پذیر ہونے تک ہمارے جتنے بھی افراد ملک بھر سے گرفتار کئے گئے ہیں۔ ایک سے تین دن تک ضابطہ کی کارروائی کے مطابق رہا کر دئیے جائیں گے اور ان پر درج مقدمات اور نظربندیاں ختم کر دی جائیں گی۔
مطالبہ نمبر چار
25 نومبر 2017ئکو ہونے والے حکومتی ایکشن کیخلاف تحریک لبیک کو اعتماد میں لے کر ایک انکوائری بورڈ تشکیل دیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کر کے حکومت اور انتظامیہ ذمہ داران کیخلاف قانونی کارروائی کا تعین کرے اور 30 روز میں انکوائری مکمل کر کے کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
مطالبہ نمبر پانچ
6 نومبر 2017ئسے دھرنا کے اختتام تک جو سرکاری و غیر سرکاری املاک کا نقصان ہوا ان کا تعین کر کے ازالہ وفاقی و صوبائی حکومت کرے گی۔
مطالبہ نمبر چھ
حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہے ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔ یہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی نمائندگی ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا جس پر ہم ان کے مشکور اور شکر گزار ہیں جنہوں نے قوم کو بڑے سانحہ سے بچا لیا۔
علامہ خادم حسین رضوی نے اس موقع پر دھرنے کے شرکائکو وہ مطالبات بھی پڑھ کر سنائے جو پورے ہو چکے ہیں اور وہ مطالبات یہ ہیں۔
”حکومتی ذمہ داران کے مطابق 7C کے تحت قادیانیوں کی ووٹر لسٹ مسلمانوں سے علیحدہ ہو چکی ہے جبکہ ہمارے وکلائٹیم کو حکومتی موقف پر تحفظات ہیں لہٰذا انہیں دور کیا جائے۔

وزیر قانون پنجاب کے متنازعہ بیان پر تحریک لبیک کی جانب سے درج ذیل علمائکرام اور مفتیان کرام پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا جائے گا جس کے روبرو وہ اپنا موقف پیش کریں گے اور یہ بورڈ جو بھی فیصلہ کرے گا وہ وزیر قانون کو من و عن قبول کرنا ہو گا۔

پیر محمد افضل قادری، پیر سید حسین الدین شاہ، پیر سید ضیائالحق شاہ اور چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان اور حافظ محمد عبدالستار سیدی صاحب، مفتی محمد فضل سبحان قادری، مفتی محمد صدیق قادری بورڈ کے ارکان ہوں گے۔
تحفظ ناموس رسالتﷺ کو یقینی بنایا جائے گا اور پاکستان میں کوئی بھی اس قسم کی سنگین حرکت کرے تو 295C کے تحت مقدمہ درج کروانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی البتہ اس قانون کا غلط استعمال روکنے کیلئے صرف ایس پی کی اجازت کو مشروط کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے کہیں کوئی رکاوٹ درپیش ہو تو تحریک لبیک اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے افسران پر مشتمل کمیٹی کوآرڈینیشن کے ذریعے معاملات خوش اسلوبی سے طے کرے گی نیز 295C کے تحت عدالتی سزا یافتہ کسی مجرم کو قطعاً کوئی رعایت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کسی سزا یافتہ مجرم کو بیرون ملک روانہ کیا جائے۔
مرکزی حکومت 295C کے تحت اندراج مقدمہ کے طریقہ کار کا نوٹیفکیشن صوبائی حکومتوں کو دوبارہ جاری کرے گی تاکہ اس حوالے سے پیدا ہونے والی غلط فہمیاں ختم ہوں۔ جیلوں میں قید غازیان اسلام کے تمام مسائل کے لئے تحریک اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کی درج بالا کمیٹی باہمی مشاورت سے معاملات حل کرے گی مزید برآں اس حوالے سے حکومت کسی ٹرائل پر اثرانداز نہیں ہو گی۔ امتنازع قادیانیت آرڈیننس 1984ئپر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت اور تحریک ایک کمیٹی قائم کرے گی جس کے ذریعے تحفظات کا مناسب حل کیا جائے گا۔
پنجاب کے اندر ساﺅنڈ سسٹم ایکٹ تحریک اور دیگر مذہبی جماعتوں کے اعتراضات دور کرنے کیلئے کمیٹی جس میں تحریک کے نمائندے بھی شامل ہوں گے، اپنی سفارشات مرتب کرے گی۔ ان سفارشات کے مطابق مطلوبہ قانون سازی کی جائے گی اس دوران اذان، عربی خطبہ، جمعہ، درود و سلام پر چاروں اطراف لاﺅڈ سپیکر کے استعمال کی بنیاد پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی جائے گی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور طبی سہولیات کیلئے وزارت داخلہ و حارجہ ان کی والدہ اور ہمشیرہ کو اعتماد میں لے کر اقدامات کرے۔
مکمل قرآن مجید کا ترجمہ، نبی کریمﷺ کی سیرت، تاریخ اسلام اور صوفیائبرصغیر کو شامل نصاب کیا جائے گا نیز تحریک لبیک کمیٹی کے دو علمائنصاب کمیٹی میں شامل کئے جائیں گے۔
مرکزی و صوبائی حکومت جشن عید میلاد النبیﷺ کے لئے خصوصی انتظامات کرے گی اور اس ماہ مبارک کی خوشی میں عوام کو خصوصی ریلیف دیا جائے گا۔ نیز 9 نومبر علامہ اقبال کی چھٹی بحال کرنے کیلئے صوبائی حکومت وفاقی حکومت کو پرزور سفارش کرے گی۔
داخلہ بندیاں اور مقدمات کے خاتمے کیلئے ہوم ڈیپارٹمنٹ حسب ضابطہ فیصلہ کرے گی نیز علمی و تحقیقی تحریر و تقریر پر دہشت گردی کا اطلاق نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ اسی طرح محافل میلاد اور بزرگان دین اور دیگر دینی محافل و تقاریب کے انعقاد میں رکاوٹیں نہیں ڈالی جائیں گی۔