سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے چیف جسٹس نے ا ز خود کاروائی کرتے ہوئے فیض اباد پل اور اطراف کی سڑکوں کو بند کر کے دھرنا دینے والے گروہ کے خلاف کا روائی کا حکم دیا توعدالت کا تقدس بحال ہوا جو ایک عرصہ سے بحالی کا منتظرتھا 1970ء میں پشاور کے اندر سرفراز خان گریڈ 17کا مجسٹریٹ درجہ اول تھا اُس کے حکم سے پور ا شہر لرز اُٹھتا تھا ایک سر فراز خا ن مجسٹریٹ کی جو دھاک بیٹھی ہوئی تھی وہ قابل قدر تھی مجسریسٹی کی عزت کا ثبوت یہ تھا کہ سر فراز خان کی موجودگی میں قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں خان،سرمایہ دار،وزیر اور گورنر بھی نہیں سوچ سکتا تھا آج وہ صورت حال کیوں نہیں ہے؟95 سال کی عمر کے بزرگ شہری حاجی عبداللہ خان کہتے ہیں کہ یہ کوئی راز نہیں سر فراز خا ن مجسٹریٹ غیر سیاسی افسر تھا 100 روپے جرمانے کے خلاف سفارش آتی تو 10 گنا بڑھا کر ہزار روپے جرمانہ وصول کرواتا تھا ایک ماہ قید کے خلاف سفارش آتی تو دو سال قید کا حکم دیتا اس لئے اُس کا رعب داب تھا و ہ کہتا تھا قانون بے لحاظ ہو تا ہے لوگ بے چہرہ ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے اگر فاطمہ بنت محمد کے خلاف بھی جرم ثابت ہو جائے تو میں حد جاری کر ونگا حضر ت عمر فاروق ؓنے اپنے بیٹے کے خلاف حد جاری کر دی،حضر ت علی کرم اللہ وجہہ نے عدالت میں آکر پیش کش کی کہ مدعی کو مجھ سے انتقام لینے کا حکم دیا جائے اس پر مدعی روپڑا انتقام کی نوبت نہیں آئی عدلیہ کا تقدس کیسے پامال ہوا؟اس کی دو وجوہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ امیر غریب میں فرق کیا جاتا ہے قاتل اگر دولت مند ہے تو وہ باعزت بری ہو جاتا ہے مقدمہ آتے ہی لوگ کہتے ہیں کہ ملزم امیر آدمی ہے،عدالت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی انجام بھی ایسا ہی ہوتا ہے امیر آدمی وکیل کو دو کروڑ روپے فیس دے دیتا ہے سرکاری وکیل کی تنخواہ مقر ر ہے جو ماہانہ ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اس میں 10 مقدمات کی پیروی کر تا ہے مقتول کے ورثاء چارلاکھ روپے کا وکیل بھی نہیں کر سکتے اس لئے قاتل باعزت بری ہو جاتا ہے سسٹم اس کی مدد کرتا ہے امریکہ کے ایک مشہور صدر ابراہام لنکن گزرے ہیں غریب ماں باپ کے گھر پیدا ہوئے، مزدوری کر کے تعلیم حاصل کی وکالت کا پیشہ اختیار کیا ایک مقدمے کی وکالت کرنے سے اس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے میں اپنے آپ کو پستی میں گرا ہوا محسوس کر ونگا اُس نے مقدمہ لانے والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ چند جملے کہے جو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اُس نے کہا ”یہ با ت نہیں کہ مجھے پیسے کی ضرورت نہیں ہے یہ بات بھی نہیں کہ میں حیلے بہانے تراش کر تمہا را مقدمہ نہیں جیت سکوں گا بات صرف یہ ہے کہ تمہارے حق میں بھاری دلائل دیتے ہوئے میں خود کو ہلکا محسوس کر ونگا اور ساری عمر شر مسار رہونگا“اس لئے کہتے ہیں کہ بینچ اور بار (Bench & Bar) عدالتی نظا م کے دو پہئے ہیں عدلیہ پر آنچ آنے کی دوسری وجہ سیاسی مقدمات کی بھر مار ہے اس بناء پر ستمبر 2007ء میں یہ تجویز آئی تھی کہ سیاسی مقدمات کو آئینی مقدمات کا نام دے کر ان کی سماعت کے لئے الگ عدالت قائم کی جائے جو صرف سیاسی مقدمات کی سماعت کرے اس تجویز کا ایک فائدہ یہ تھا کہ عام مقدمات کی سماعت کے لئے ججوں کے پاس وقت بچ جاتا جو فیصلے 30سالو ں میں ہوتے ہیں وہ کم از کم 10سالوں میں ہو جاتے کینیڈا کے شہری گل جی نے اس کو دہرا معیار قرار دیا ہے ایک شہری کا مقدمہ 18 سالوں سے التوا ء میں ہیں اس طرح دہرے معیار کے بے شمار نمونے سامنے آجاتے ہیں عدالتوں پر بھی تبصرے ہونے لگتے ہیں جو اُن کے تقدس کے منافی ہے جن شہریوں نے 1970 ء میں پشاور شہر کے سر فراز خان مجسٹریٹ کا انصاف دیکھا ہے وہ موجودہ حالات میں عدلیہ سے ایسے ہی انصاف کی توقع رکھتے ہیں بقول سر فراز خان مجسٹریٹ ”قانون بے لحاظ ہوتا ہے لوگ بے چہرہ ہوتے ہیں“دہرے معیار کو ختم کرنے کا یہی ایک نسخہ اور فارمولا ہے۔
حزب اللہ کے خلاف مہم
خبر آئی ہے کہ عرب لیگ کا اہم اجلاس ہنگامی طور پر مصر کے دار لحکومت قاہرہ میں بلایا گیا مصر کے فوجی صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنی وزارت خارجہ کو میزبانی کا حکم دیا سعودی عرب کے وزیر خارجہ سے اجلاس کی صدارت فرمائی گئی اجلاس میں عراق اور لبنا ن کے نمائیندے شریک نہیں ہوئے شام اور یمن کو دعوت نہیں دی گئی 20 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اتفاق رائے سے فلسطینی مسلمانوں کی حریت پسند تنظیم حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد منظور کر کے اپنا فرض ادا کیا حسن نصر اللہ کی تنظیم حزب اللہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ہے لبنان کے عیسائی بھی اس تنظیم پر اپنی جان قربان کرتے ہیں جو لائی اگست 2006 ء میں 50 دنوں کی لڑائی کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل کے توپوں،راکٹوں اور میزائلوں کو خاموش کر دیا تھا اب بھی اسرائیل کو حزب اللہ کی طاقت سے شدید خطرہ ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی حزب اللہ کو دھمکی دی تھی امریکی وزیر دفاع نے سینٹ کی خارجہ کمیٹی میں کہا تھا کہ ہم اسرائیل کی راہ میں کوئی ناگوا ر رکاوٹ باقی نہیں رہنے نہیں دینگے لیکن ایسی بے شمار وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ یہ کام خود نہیں کرتا سعودی عرب اور مصر سے کام لیتا ہے کویت،بحرین،اردن اور متحدہ عرب امارات سے کام لیتا ہے اومان،مسقط اور دیگر عرب ملکوں سے کام لیتا ہے معمر قذافی کو شہید کرنے کے بعد لیبیا پر امریکہ نے قبضہ کیا تھا اب لیبیا سے کام لے رہا ہے۔
تیر کھاکے دیکھا جو کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
اب کیا ہوگا؟اسرائیل اور امریکہ کے وزرائے خارجہ عر ب لیگ کی قرار داد کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے جائینگے جب قرار داد پیش ہوگی تو روس اس کو ویٹو کر رے گا دوسری بار قرار داد آئیگی تو چین ویٹو کر رے گا ”پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے“یہ 100 سال پہلے کا قصہ ہے 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے شریف مکہ اور آل سعود کے جدّا مجد شیخ سعود کیساتھ معاہدہ کیا یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا معاہدہ میں تین باتیں تھیں پہلی بات یہ تھی کہ جنگ میں ہٹلر کو شکست دینے کے بعد سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے ترکی کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے گا چاروں ٹکڑے برطانیہ کے غلام ہونگے عربوں کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا دوسری بات یہ تھی کہ شریف مکہ کو اردن میں بادشاہت دی جائیگی اور شیخ سعود کی اولاد کو حجاز مقدس کا بادشاہ تسلیم کیا جائے گا تیسری بات یہ تھی کہ فلسطین سے عربوں کو بے دخل کر کے یہاں یہودی ابادکاروں کی بستیاں تعمیر کی جائینگی اور 32 سالوں کے اندر یہاں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی شریف مکہ اور شیخ سعود نے معاہدے پر دستخط کئے بالفور (Balfour) نے اس کا اعلامیہ جاری کیا تاریخ میں 100سال پرانی اس دستاویز کو بالفور ڈیکلریشن کہا جاتا ہے 1919 ء میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو بالفور ڈیکلریشن پر عملد رآمد شروع ہوا شریف مکہ اور شیخ سعود کو باد شاہت ملی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا علامہ اقبال نے کہا؎
اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
سلطنت عثمانیہ کے حق میں پاک و ہند کے مسلمانوں نے تحریک چلائی اُسے تحریک خلافت کہا جاتا ہے مولانا محمد علی جوہر ؒ،مولانا شوکت علی،مولانا عبیداللہ سندھی ؒاور ترکستانی مسلمانوں کے لیڈر امام موسیٰ جار اللہ کے نام آج بھی عزت اور احترام سے لئے جاتے ہیں ریشمی رومال تحریک کا ذکر آج بھی ہوتا ہے ترکی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا مرحلہ آیا تو مصطفی کمال اتاترک دشمن کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑا ہوا مگر اردن اور سعودی عرب کے بادشاہوں کی مدد سے فلسطنیوں کو فلسطین سے بے دخل کیا گیا یہودیوں کو وہاں بسایاگیا لبنان کے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں میں فلسطینی مہاجرین پر امریکہ نے کئی بار بمباری کی حزب اللہ انہی فلسطینی مسلمانوں کی تنظیم ہے حسن نصراللہ ان کا لیڈر ہے 1917 ء میں ایک ریڈ انڈین واشنگٹن گیا تو ٹکٹ چیکر نے ان سے پوچھا ”میرا شہر تمہیں کیسا لگا؟ریڈ انڈین نے سوال کیا،پہلے یہ بتاؤ میر ا ملک تمہیں کیسا لگا؟2017 ء میں ایک فلسطینی سیاح یروشلم گیا تو اسرائیلی سپاہی نے یہی سوال پوچھا،فلسطینی سیاح نے یہی جواب دیا آج بھی فلسطینی اپنے وطن کی آس لگائے بیٹھے ہیں حزب اللہ ان مہاجرین کی اولاد نے قائم کی ہے کتنے دکھ کی بات ہے کہ ان کو اسرائیل اور امریکہ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا خطرہ سعودی عرب،مصر اور عرب لیگ سے ہے یہ بھی دکھ کی بات ہے کہ مظلوم فلسطینی مہاجرین آج مدد کیلئے روس اور چین سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں حزب اللہ کے خلاف مہم 100 سالہ تاریخ کا تسلسل ہے