ضلع ناظم چترال کی طرف سے فنڈ کی تقسیم میں جو ناانصافی کی گئی ہے۔ اُس کے خلاف میں اپنے دیگر خواتین ممبران سمیت دھرنا دینے اور عدالت کا سہارا لینے پر مجبور ہو چکی ہوں۔ ضلع کونسل خاتون رکن حصول بیگم

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) ضلع کونسل چترال کی خاتون رکن حصول بیگم نے کہا ہے۔ کہ ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ کی طرف سے فنڈ کی تقسیم میں جو ناانصافی کی گئی ہے ۔ اُس کے خلاف اب وہ اپنے دیگر خواتین ممبران سمیت دھرنا دینے اور عدالت کا سہارا لینے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ چترال میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ کہ ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ خواتین کو ضلع کونسل کا حصہ ہی نہیں سمجھتی۔ بار بار درخواست اور مطالبے کے باوجود فنڈ کی تقسیم میں امتیازی سلوک پر نظر ثانی کیلئے تیار نہیں جس کی بنا پر اب اُنہیں مجبو را اُن کے خلاف دھرناا دینے اور عدالت جانے کا راستہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ حصول بیگم نے کہا۔ کہ وہ پہلے بھی ممبر رہ چکی ہیں لیکن فنڈ کی تقسیم میں اس قسم کی امتیازی سلوک سے اُنہیں کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ جبکہ اب خواتین ممبران کی جس طرح تذلیل ضلع ناظم کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ وہ چترال کی تایخ میں ایک مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ مو صوف جن ممبران پر مہربان ہیں۔ اُن کیلئے اپنی مرضی کے فنڈ کے حصول میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے۔ کہ مخصوص سیٹوں پر آئے ہوئے اُن کے چہیتے ممبران جنرل سیٹوں پر آئے ہوئے ممبران کے برابر فنڈ حاصل کر چکے ہیں۔ جبکہ خواتین ممبران کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ بجٹ کا پانچ فیصد جو خواتین کی ترقی پر لازما خرچ کرنی ہے۔ اُسے ضلع کے تمام ممبران پر تقسیم کیا جانا چاہیے۔ تاکہ تمام علاقوں میں خواتین کی بہبود کے کام کئے جائیں۔ اور باقی فنڈ براہ راست آئے ہوئے ممبران اور مخصوص سیٹوں کے ممبران میں برابر تقسیم کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ اور ضلع ناظم خواتین کا پانچ فیصد فنڈپوری خواتین ممبران میں تقسیم کرکے مین بجٹ اپنی مرضی سے بانٹ رہا ہے۔ اور اس حوالے سے وہ خواتین کی کسی بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا۔کہ وہ انتہائی مجبور ہو چکی ہیں۔ اب اُن کے پاس اپنے ساتھیوں کو لے کر دھرنا دینے اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ اس معاملے کو سلجھانے کیلئے ضلع کونسل کے ممبران پر مشتمل جو کمیٹی بنائی گئی تھی، انہوں نے بھی ٹرخانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ حصول بیگم نے کہا۔ کہ مردوں کے تسلط والے اس معاشرے میں خواتین کے حقو قی کی باتیں بالکل کھوکھلی ہیں۔ جب مقامی حکومت خواتین کو اُن کے جائز فنڈ فراہم نہیں کرتی۔ تو دوسری جگہوں میں خواتین کے حقوق کی فراہمی کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا۔ کہ وہ ضلع کونسل چترال کی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا نوٹس لیں۔ اور اُنہیں اُن کا جائز حق دلانے کیلئے قانونی مدد کریں۔ بصورت دیگر خواتین یہ کہنے پر مجبور ہوں گی۔ کہ خواتین کے حقوق کی باتیں کرنے والے ادارے صرف زبانی جمع خرچ کرکے عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا اور کوئی کام نہیں کر رہے ہیں۔