دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔”الحذر اے چیرہ دستان“۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

معاشرہ اس وقت جنت نظیر بن جاتا ہے جب زیردست اور زبردست کا تصور صرف تصور رہ جاتا ہے۔ادمیت کا احترام ہوتا ہے۔مایوسیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ہمارا معاشرہ کچلا ہوا معاشرہ ہے یہاں پر مطلق العنانی رہی ہے۔۔ریاست ریاستی حکمرانی، بادشاہت بادشاہ کی ریشہ دوانیاں، جاگیرداری جاگیردار کی من مانیاں یہ سب اس نسل کے خون میں شامل ہیں۔۔۔آزادی ذہن کی آزادی کا نام ہے بندہ فکری، ذہنی اور عمل کے لحاظ سے آزاد ہوتب اس کانام آزادی ہے۔۔وہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ حق کیاہے ناحق کیا۔۔۔سچ کیا ہے جھوٹ کیا۔۔۔ہمارے ہاں اب بھی فکری آزادی نہیں۔۔کچھ وہ رٸیس زادے ہیں جو انانیت کے شکار ہیں کچھ باغی کوفت زادہ آزاد ہیں جن کے خون میں نفرت بھری ہوٸی ہے یہ نفرت منافقت بن جاتی ہے کہ بڑے کے سامنے چاپوسی اورتعریفیں اور پیٹھ پیچھے گالیاں۔۔یہ انداز محبت اوراحترام جو معاشرے کی بنیاد ہے اس کو کھا جاتا ہے۔معاشرہ اس گردو غبار سے اٹا ہوا ہے چیرہ دستوں کی چیرہ دستیاں ایک روگ ہیں۔ان کو نۓ اسطلاح میں”قبضہ مافیا“ کہاجاتا ہے۔۔یہ قبضہ مافیااگر ٹھیکہ داروں کاگروپ ہے توان کے ذمے کے کام کا کوٸی پوچھے گا نہیں کوٸی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ادھورا کیوں ہے؟۔یہ مافیا پوچھنے والوں کو اعتماد میں لے گا۔۔ یہ پوچھنے والے مضبوط عوام ہوتے ہیں یا یہ وہ ذمہ دار ہوتے ہیں جو کسی انجینیر کو، کسی ایکس سی این کو، کسی ڈپٹی کمشنر کو، وزیر ممبر کو، محکمے کو پوچھناہوتاہے۔۔۔مگر پوچھنے کا مجاز بھی اگر کوٸی ہے تو وہ کتراۓ گا اس لیے کہ اس میں اس کی ذات اور ذاتی مفاد شامل ہوگا۔۔۔عوام کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔۔۔بیس تیس کلومیٹر لمبی تورکھو روڈ میں 12 سال میں دو کلومیٹر کام ہوگا پوچنے والا کوٸی نہیں ہوگا۔چترال میں سنگور آر سی سی پل دو مہینے میں مکمل ہوگا۔ مہینگاٸی آۓ گی پلک جھپکنے میں قیمتیں آسماں کو چھوٸیں گی ارزانی آۓ گی مگر قیمتیں ایسی کی تیسی رہیں گی پوچھنے والا کوٸی نہیں ہوگا۔۔شہر میں انتظامیہ بیٹھا ہواہوگا۔۔لاکھوں روپے کی گاڑی میں بازارمیں سے گزرے گا لیکن ان کو احساس نہیں ہوگا کہ بازار میں ٹماٹر کی قیمت سبزی فروش خود لگاتا ہے۔پولیس کلف زادہ وردی میں باہر نکلے گی لیکن ٹیکسی والا اپنا کرایہ خود متعین کرے گا۔عوام دھاٸیاں دے گا تو یہ من مانیاں کرے گا اس لیے کہ کہیں چیرہ دست خفا نہ ہوجاۓ۔۔ہمارے ہاں ذمہ داری ”پاور“ ہے ”خدمت“ نہیں۔۔کوٸی ذمہ دار یہ نہیں سوچتا کہ اس ذمہ داری کے عوض اسے رزق ملتا ہے اور کل قیامت کے دن اسے اللہ کے حضور حساب بھی دینا ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ سب سے مشکل کام یہ ہے کہ غلام کو یہ باور کرانا کہ تم غلام ہو۔۔۔ہٹلر نے کہا تھا کہ”عوام کو نعروں سیبیوقوف بنایاجا سکتاہے“ یہ بالکل سچ ہے کوٸی فرد اجتماعیت کا نہیں سوچتا۔یہی انفرادیت اور چاپلوسی ہے جس سے غلامی جنم لیتی ہے۔۔مافیا جنم لیتا ہے۔دھندے سراٹھاتے ہیں اور اسی ماحول کو افراتفری کا نام دیا جاتا ہے۔اس الیکشن مہم میں ہم نے کسی بڑے لیڈر کو خوبصورت سیاسی بیانیہ پیش کرتے ہوۓ، اپنا عزم بیان کرتے ہوۓ، کسی بڑے مسلے کو حل کرنے کا وعدہ کرتے ہوۓ نہیں دیکھا اور ان کے ساتھ جو ”کھتہ“ تھا وہ بس بھنبھناتا اور نعرے لگاتا رہتا۔شاید یہ منظر بھی اسی طرح رہیگا کوٸی درینہ مسلہ حل ہونے والا نہیں کوٸی لیڈر اپنا دامن دھندوں سے بچانہیں سکے گا۔ کوٸی ایسالیڈر ہو کہ سب کو ساتھ ملانے کی کوشش کرے قوم اور علاقے کے درینہ مسلوں کو حل کرنے کی کوشش کرے۔اگر نہ ہو تو قوم اس طرح دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہے گی اس لیے کہ تجربہ بتاتا ہے۔۔۔کہ ”حسب اختلاف“ میں بیٹھنے والے کو کچھ نہیں ملتا۔۔۔کیا جمہوریت اسی کانام ہے کیا حسب اختلاف میں بیٹھے ہوۓ ممبر کے پاس مینڈیٹ (حمایت)نہیں ہے کیا وہ کسی کی نماٸندگی کرنے نہیں آیا۔کیا اس کے علاقے کو بس محروم رکھا جاۓ گا۔۔سوال ہمارے نماٸندوں کی صلاحیتوں پہ بھی اٹھتاہے اوران کی لیڈرشپ پہ بھی۔۔۔کیا وہ ان چیرہ دستوں کے سامنے بے بس ہیں۔۔۔یہ محرومی کہیں بم کی طرح پھٹ نہ جاۓ اور کسی انقلاب کا پیش خیمہ نہ ہو