دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔”ایوانوں کی رونقیں“۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

ملک خداداد میں پھر سے چناٶ ہوا۔۔نماٸیندے منتخب ہوۓ۔۔۔مقروض ملک کے نماٸندے بڑے شاہانہ انداز سے ایوانوں میں پہنچے۔۔ان کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیل بھی آگئی۔آگے آٸی ایم ایف، ورلڈ بینک کے علاوہ دوست ممالک سے قرضوں کی شیڈول پر بات ہو رہی ہے۔کامیاب اور قابل حکومت وہ ہے جو آٸی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لے لے۔ڈالر میں لے لے اور ڈالر کے حساب سے واپس اداٸیگی کرے۔۔۔ آگے ملک میں ترقی ہوتی ہے یا تنزل اس سے اس کوکوٸی سروکار نہیں۔ایوانوں میں سرمستیاں ہوں۔۔۔ ڈیبیٹ ہوں۔۔۔۔دلاٸل ہوں۔۔نکتہ اعتراض ہوں۔۔واک آوٹ ہوں۔۔گالم گلوج ہوں۔۔باقی وقت گزرے گا۔۔۔عوام کا خدا حافظ۔۔۔۔ببانگ دہل اعلان ہوگا کہ ہم نے قرض لیکے ملک کو دیفالٹ ہونے سے بچایا۔۔۔ہماری بدبختی کب تک رہے گی۔۔کسی بھی پارٹی کے کارکن سے ہم بحث نہیں کر سکتے۔۔بار بار جن کی حکومتیں آتی ہیں ان سے کارکردگی نہیں پوچھ سکتے۔۔کچھ شوشے اوردیکھاوے ہیں ان کو کامیاب سیاست کہہ کر پیش کیاجاتا ہے۔۔ناجاٸز مراعات کی بات کرو تو آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔کارکردگی کا بتاٶ تو گردن توڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔غالب کو جب زندگی نے کسی کا نہ چھوڑا۔۔۔ تنگ دستی نے جھکڑ لیا تو کہا۔۔۔۔۔۔کوٸی امید بھر نہیں آتی۔۔۔۔۔کوٸی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔۔
گاٶں کی ایک چھوٹی سی دکان میں ایک بوڑھے کے ہاتھوں میں دوسو روپے دیکھا وہ لوگوں کا بھی منہ تک رہا تھا اور دکاندار کا بھی۔۔۔اس انتظار میں تھا کہ لوگ ادھر ادھر ہو جاٸیں تو اکیلے میں دکاندار سے گھی خریدے۔۔دوسو میں نصف کلو گھی ملتا ہے اس کو شرمندگی ہورہی تھی۔۔۔دکاندار نے ڈانٹ کر کہا۔۔۔۔چچا!کیا لینا ہے۔۔۔اس نے دوسو روپے آگے کرکے کہا۔۔بیٹا گھی لینا ہے۔۔چچا میرے کلو والے گھی کے تھیلے ہیں دو پاٶ والے نہیں۔۔۔چچا نے پیسے پھر مٹھی میں بھینج لیے۔۔۔۔منہ آسمان کی طرف اٹھایا۔۔۔میں نے عرض کیا چچا ہم سب کی حالت کچھ یوں ہے۔۔۔اس نے نہایت درد سے کہا۔۔۔بیٹا! جس نے اس ملک کی حالت یاں تک پہنچایا وہ تباہ و برباد ہوجاۓ۔۔۔چچا کی آنکھوں میں افسردگی تھی چچا کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ اس کے اس پیارے ملک میں افسر شاہی، عدلیہ، انتظامیہ، محافظ اور نماٸیندے کیسی زندگی گزار رہے ہیں ان کی لائف سٹاٸل، ان کی عیاشیاں، ان کی پارٹیاں، ان کی رنگیں زندگیاں،ان کے سفر خضر، ان کے محل نما گھر ان کا دستر خوان۔۔۔۔چچا کی زندگی دو پاٶ گھی پہ آ کے رکی تھی۔۔۔چند دن پہلے انتخابات ہوۓ تھے۔چچا نے الیکشن لڑنے والوں کی کافی ساری اور دعوے سنے تھے۔۔اب تو چچا کو نہیں پتہ تھا کہ ان نماٸندوں کے لیے اس مقروض ملک کا ایوان سجایا جارہا ہے۔ان میں سے کوٸی بھی نماٸندہ ایسی غیرت والا نہ ہوگا کہ وہ کہے کہ ہم مقروض ملک کے ایوان میں بیٹھے ہیں ہمیں مراعات نہیں چاہیے۔۔۔یہ بڑے دل گردے کا کام ہے۔۔ایوان سجے گا اس کے اندر بہت ساری آوازیں صدا بہ صحرا ہوں گی۔ان مراعات اور عیاشیوں میں کمی نہیں آۓ گی۔۔قوم کی پسماندگی اسی طرح رہے گی کوٸی تعمیراتی کام کوٸی ترقی کا نام ونشان کوٸی خود انحصاری کا جذبہ کچھ نہیں ہوگا یہ مراعات یافتہ حضرات ایوان سے باہر آٸیں گے تو صاحب جاٸیداد ہونگے۔۔یہ آفسر شاہی جب پنشن پہ جاٸیں گے تو صاحب جاٸیداد ہونگے۔۔۔یہ بابا اور اس کی طرح رلرنے والے عوام کی قسمت میں یہی دوسو روپے ہوں گے جو ایک کلو گھی کہ قیمت بھی نہ ہوں گے۔۔۔
رات جل اٹھتی ہے جب شدت ظلمت سے ندیم۔۔۔۔۔۔۔لوگ اس وقفہ ماتم کو سحر کہتے ہیں