دھڑکنوں کی زبان۔۔۔”ایک عدد ووٹ چاہیۓ صاحب“۔۔محمدجاوید حیات۔

Print Friendly, PDF & Email

ووٹ منگے آج کل تو گلی گلی ملتے ہیں۔ہر کہیں یہی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ ملک میں الیکشن ہو رہے ہیں۔۔”انتخابات“ ”چناٶ“ ”اعتماد“اعتبار اور وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔کسی اہل درد نے تڑپ کر کہا تھا۔۔۔الیکشن،ممبری، کونسل صدارت۔۔۔۔تعرض یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔سلیکشن ٹھیک نہیں ہو رہی۔۔۔تعرض یوں ہے کہ کوٸ موزون بندہ ملتا ہی نہیں۔۔۔تعرض یوں ہے۔۔کہ کسی بھی پارٹی کا ماضی شفاف نہیں۔۔اندیشہ یوں ہے کہ افراد اپنے من میں ڈوب کر خواب پریشان بن جاٸیں پھر کوٸ کہے ہمارا بھی کوٸ قومی اور صوباٸ اسمبلی کا ممبر یوا کرتا تھا۔سوشل میڈیا نے جھوٹ اور پروپگنڈے کو اسان اور ارزان بنا دیا ہے۔۔یہ جھوٹ کی سرکس ہے۔۔یہ افواہوں کا واٸس باکس ہے۔کوٸ امیدوار آتا ہے۔۔اس کے پاس سچ بولنے کے لیۓ ویسے بھی الفاظ نہیں۔۔جھوٹ وہ ترتیب سے بول نہیں سکتا۔۔۔جو بولتا ہے۔۔۔ تولتا نہیں اس لیے اس کو احساس نہیں ہوتا کہ کیا بولا ہے۔۔کسی منچلے نے کہا تھا۔۔۔جھوٹ کے پاٶں نہیں ہوتے۔۔۔کاش یہ پیارا پاکستان کسی اور کے پاس ہوتا۔ وہ سچ بولتا۔۔۔اس کا کردار بے مثال ہوتا۔۔اس کو اس سر زمین سے پیار ہوتا۔۔وہ اس کی حفاظت کو اور ترقی کو اپنی منزل سمجھتا۔وہ کبھی بدعنوانی کا نہ سوچتا۔وہ انصاف اور عدل کا چیمپین ہوتا۔اس کو دوسروں سے محبت ہوتی۔وہ کسی کے دکھ درد میں شامل ہوتا۔وہ اس کی تعمیر کا سوچتا جب پل بناتا تو سینکڑوں سال کی گیرنٹی ہوتی۔۔سڑکیں شیشے کی طرح شفاف ہوتیں۔۔۔دفتروں میں خدمت سے سرشار اہلکار ہوتے۔تعلیمی اداروں میں خواب دیکھے جاتے۔یہ پھول پھول بچے ان خواب دیکھنے والوں کی تعبیریں ہوتے۔ہر کوٸ خدمت کو گلے لگاتا حکمرانی سے دور بھاگتا۔تب یہ گلی میں آتا اس کی آنکھوں میں خدمت اور صداقت نور بن کے چمک رہی ہوتی۔ وہ اٹکتے اٹکتے کہتا۔۔۔”مجھے قوم نے خدمت کے لیے میدان میں اتارا ہے۔میں اس آزماٸش کے لیے اپنے آپ کو موزون تو نہیں سمجھتا اگر مجھے خواہ مخواہ اس آزماٸش میں ڈالنا ہے تو ہزار بار سوچو“۔۔۔۔ تب میں اس کی آنکھوں میں ڈوب جاتا۔۔اس سمے میری پاک سرزمین خوابوں کی سرزمین بن کے آنکھوں میں اتر جاتی۔ہر طرف پھول کھلے ہوۓ ہوتے۔ترقی ہوتی۔خوشحالی ہوتی۔۔اطمنان ہوتا۔۔ عدل ہو تا۔۔۔کوٸ غریب بھیک نہ مانگتا۔۔دولت کی تجوریاں ہوتیں۔میرا بچہ آزاد پیدا ہوتا۔۔کسی کی پرستش نہ ہوتی۔۔۔”یس اور ہاں“ کی اہنگیں نہ ہوتیں۔۔حکمران عام سا بندہ ہوتا۔اس کا اٹھنا بیٹھنا عام لوگوں کے ساتھ ہوتا۔۔اس کی زندگی وہی ہوتی جو پہلے تھی اس کا کوٸ پروٹوکول نہ ہوتا۔۔اس کیسارے وعدے سچے ہوتے۔ان پر اعتبار کیا جاتا۔اس کی آنکھوں میں وہی نور ہوتا۔۔۔خدمت کا نور۔۔۔ایسے بندے کے لیۓ ”ووٹ“ کی کیا قیمت ہوگی۔ایسا ووٹ، ایسی حمایت،ایسا اعتماد یہ تو کوٸ خواب نگر میں ہوگا۔۔بس وہی ایک امانت جو قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔اس حمایت(ووٹ) کی بہت لمبی تاریخ ہے۔۔۔عرب کے اکیلے جوان (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا۔۔اگر قریش میرے داہنے ہاتھ میں سورج اورباہنے میں چاند رکھ دیں تب بھی میں حق کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اس حمایت کی عجیب تاریخ ہے۔۔شہید کربلا نے سر کٹایا بس ایک ووٹ کی بات تھی۔یہ مقدس امانت ہے کاش کوٸ اس کی قیمت سے آگاہ ہوتا۔۔کاش کوٸ اس کو مانگنے کے قابل ہوتا۔۔۔۔وہ میری گلی میں آتا۔۔۔خاموش کھڑا رہتا۔۔۔سر جھکا ہوا ہوتا۔۔۔میرا دل کہتا یہ ووٹ مانگ رہا ہے۔۔۔میرا ضمیر کہتا یہ اس کے قابل ہے۔۔۔اس کے دل سے آواز آتی۔۔۔۔”مجھے ایک ووٹ چاہیۓ صاحب“۔۔۔میں کہتا۔۔۔۔آپ کے لیۓ میری جان حاضر ہے جناب۔۔۔۔۔۔۔۔