دھڑکنوں کی زبان۔۔۔”گورنمنٹ سکولوں کے چند ہیرے“۔۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

ناچیز کو سالانہ سکول انسپکشن ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔۔تریچ بالا سے موڑکھو مڈل سکول شونو تک تقربا چالیس سکولوں کا معاینہ تھا۔سکول رکارڈز کے علاوہ بچوں کی تعلیم حالت اور اساتذہ کی محنت کا اندازہ لگانا تھا۔سفر شاگرام سے شروع ہوا اور شاگروم تریچ سے انسپکشن شروع ہوا۔۔میں اور پرنسپل ہایر سکینڈری سکول شاگرام جناب حفیظ الدین صاحب تھے اظہار بھائی لیپ اسسٹنٹ ہاٸر سکینڈری سکول شاگرام اپنی گاڑی لے کے ساتھ تھے آگے آپ ہماری ٹیم کا حصہ بنے اور سکولوں کی کارکردگی جانچنے میں ساتھ دیتے رہے۔۔ہم شاگروم کے آخری سکول گورنمنٹ پراٸمری سکول شاگروم میں داخل ہوۓ۔اچھی خاصی عمارت چاردیوای سہولیات موجود اساتذہ موجود بچے مستعد کام میں مصروف۔ہم نے سوچا حکومت اور کیا کرے کڑوروں کی عمارت بناٸی۔اس کے اندر سہولیات مہیا کی اساتذہ بھرتی کیا اب قوم کو تعلیم یافتہ بننے میں رکاوٹ کیا ہے۔نوجوان اساتذہ کو اس بات کا احساس دلایا کہ واقع ان کو بڑا کام سونپا گیا ہے۔ہمارا سفر پرسکون اور خوبصورت تھا۔ہمارا واسطہ گلشن انسانیت کے پھولوں سے تھا۔معماران قوم سے تھا۔اگر کہیں کسی رکارڈ میں مسلہ ہوتا تو پرنسپل صاحب ایسے سمجھاتے گویا کہ استاذ بنے بیٹھا ہو۔ہر سکول کی ہر کلاس میں کوٸی موتی ملتا اس کی انکھوں کی چمک بتاتی کہ وہ کوٸی خاص ہیبلا جھجھک سوال کا جواب دیتا دوسرے سوال کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھتا۔کلاسوں میں بچے ایک جیسے نہ تھے کچھ سہمے ہوۓکچھ اپنی کمزوریاں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے۔ کچھ اساتذہ کی کم پڑھاٸی اپنے سر باندھنے کی کوشش کرتے۔ایک سکول میں ایک بچے سے جب میں نے ایک نصاب کم پڑھانے کی وجہ پوچھی تو ایک بچے نے نہایت معصومیت سے کہا۔۔۔سر! ہمارا استاذ بیمار ہو گۓ تھے۔۔۔استاذ کی بیماری سچ ہویاجھوٹ بچے کی سچاٸی دیدنی تھی۔۔جب گورنمنٹ مڈل سکول تریچ پاٸین میں DSS کی کلاس میں داخل ہوۓ تو ایک ہیرے نے واقع متاثر کیا۔آپ نے DSS پروگرام میں داخلہ کیوں لیا۔۔آگے ”سر،سر“ نے اس کے ساریجذبات سمجادئیے۔وہ ذین و فطین تھے میرے دل سے اس کے مستقبل کے لئے دعا نکلی میں نے انہی کیگاٶں کے ایک ہیرے کی مثال ان کو دے دی۔۔۔کہا سعید احمد ڈپٹی سیکریٹری محکمہ مالیات آپ ہی کے گاٶں کے ہیں۔۔سب کی آنکھوں میں فخرکانور اتر آیا۔۔جدوجہد کے آگے جعرافیہ کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔۔تیسرے دن گورنمنٹ ہاٸی سکول لنکوہ جانا تھا۔۔لنکوہ کا سکول ضلع کے اچھے سکولوں میں شمار ہوتا ہے سالانہ نتاٸج میں ان کے طالب علم ضلع میں پہلے دس طلبا میں اپنا شماررکھتے ہیں۔میں دسویں کلاس میں داخل ہوا۔وہاں دو ایسے بچے موجود تھے جومجھ سے سوال پوچھ رہے تھے۔ان کی ہوشیاری مستعدی اور ذہانت نے مجھے ان کوشاباش دینے پر مجبور کیا۔جماعت نہم میں تین بچیاں ایسی ملیں کہ ان کو واقع علم کی پیاس لگی تھی۔ان کو لگتا تھا کہ میں کوٸ جاٸزہ لینے والاء نہیں بلکہ ان کا کوٸی باقاعدہ استاذ نکلا۔۔ان میں سے ایک ثانیہ کوثر میرے بھاٸی دوست ظہیر کی بچی نکلی۔۔میں جب کلاس سے باہر آیا وہ سارے بچے پھر مجھے کھینچ کھینچ کے کلاس لے جا رہے تھے کہ سراور ہم سے باتیں کریں۔۔ہمیں مساٸل سمجھاٸیں ہمیں راستیدیکھاٸیں۔مجھے اچھا لگا کہ گورنمنٹ سکولوں میں ایسیہرے پنپ رہے ہیں۔گورنمنٹ ہاٸی سکول کشم میں جانا ہوا۔یہ ادارہ اپنی آن رکھتا ہے۔اس سال ان کی جماعت دہم کے تین بچے ضلعے میں ٹاپ ٹین میں آۓ جماعت نہم کی ایک بچی نے 530 نمبر لیا۔ان کی کلاس مجھے بہت پیاری لگی۔دو بچے ایسے نرالیتھے کہ ہر سوال پہ جواب دینے کے لیے کھڑیہوتے۔ان کولگتا کہ بس انہی سے پوچھا جاۓ جواب دینا کسی دوسرے کے حصے میں نہ آۓ۔ ان کے انگریزی کا استاذ صابر صاحب ساتھ کھڑے تھے۔وہ فخرسے سراٹھا رہے تھے۔جماعت کی بچی جس نے ٹاپ کی تھی وہ بہترین پریزنٹیٹر بھی ہیں ساٸنس کی کلاسوں میں وہ پریزنٹیشن دیتی ہیں اور اپنی قابلت کا لوہا منواتی ہیں۔۔ہر ہر مضمون کے اساتذہ داد کے مستحق ہیں یہاں کے ساٸنس ٹیچر عظیم استاذ ہیں حقٕقی معنوں میں معمارقوم ہیں۔پرنسپل مبارکباد کے مستحق ہیں۔گورنمنٹ مڈل سکول وریجون || میں جاعت ہفتم میں دوایسے بچے ہیں جن میں سیایک نے نعت خوانی میں پورے ملک مکمل میں تیسرے نمبر پہ آۓ ہیں اور دوسرا انگریزی تقریر میں پورے ضلع میں اول آۓ ہیں۔ان کے ہیڈ ماسٹر آفیسر احمد صاحب نے بتایا کہ اردگرد نجی تعلیمی ادارے کے بچے بھی ان کے ادارے میں داخلہ لے رہے ہیں۔۔مجھے چالیس سکولوں میں ہر سکول میں ہیرہ ملا۔ایسا ملا مجھے فخر محسوس ہوا۔۔یہاں پہ سوال یہ ہے کہ والدیں کا ان اداروں پر اعتماد کیوں نہیں۔۔دوسرا سوال ان اداروں کے اساتذہ کو اپنے اداروں کو نمایان بنانے کی جہد مسلسل کی فکر کیوں نہیں۔۔۔حکومت کو یہ احساس کیوں نہیں کہ جہان ان اداروں میں بچوں کی تعداد کی فکر ہے وہاں پر معیار تعلیم کی فکر کیوں نہیں۔کیا اساتذہ کے کام کو سختی سے جانجنے کے بغیر، کیا فیل پاس اور میرٹ کے بغیر، کیا جزا سزا کے بغیر کوٸی ادارہ معیار دیکھا سکتا ہے اگر ہے تو وہ والدیں اپنے ایسے بچے جو پبلک سکولوں میں نہیں چل سکتے داخلے کے لیے یہاں پر کیوں لاتے ہیں۔۔یہ گورنمنٹ کے اساتذہ کے لیے المیے سے کم نہیں۔۔کہ ان کے کردار پر سوال اٹھتے ہیں ان کے معیار پر اعتماد نہیں۔۔۔۔مجھے کم از کم اپنے گورنمنٹ سکولوں کے ان ہیروں پہ فخر ہے خواہ وہ جہاں بھی ہوں۔۔۔