دادبیداد۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔روربھائی کانعرہ

Print Friendly, PDF & Email

دادبیداد۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔روربھائی کانعرہ
وطن عزیز پاکستان کی موجودہ حالات میں جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں محبت رور بھائی چارہ پہلے نمبر پرہے پشاور شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ”روربھائی کانعرہ،محبت بھائی چارہ“ اس شہر کا مقبول نعرہ رہا ہے اوراب بھی ہے ایک زمانہ تھا تبلیغی جماعت کامرکز گنج کی ایک مسجد میں ہوتا تھا اس کے بعد یہ مرکز سخی چشمہ منتقل ہوا گنج دروازے کے باہر جو تانگے ہوتے تھے یاہتھ ریڑھیاں کھڑی ہوتی تھیں ان کے چاروں اطراف میں مناسب جگہ پرخوب صورت اور جلی حروف میں لکھاہواہوتا تھا”رور بھائی کا نعرہ محبت بھائی چارہ“ پھر میں نے فردوس سینما روڈپرتانگوں اور ہتھ ریڑھیوں پریہی نعرہ اسی طرح خوش خط لکھا ہوا دیکھا تو ایک دوست سے پوچھا کس کو اتنی فرصت ہے کہ سیاہی اور برش لیکر سارے شہر میں پھرتا ہے اور اتنی خوب صورت خوش خطی میں یہ نعرہ لکھتا ہے؟دوست نے مجھے بتایا کہ اسے صرف ایک بار لکھا گیا ہے اورجستی چادر کے ٹکڑے پراُلٹے حروف میں لکھا گیا ہے۔اس جستی چادر کو لکڑی کے اوپر رکھ کر اُس پر ایک برش کے ذریعے رنگ کیا جائے تونیچے یہ نعرہ سیدھے حروف میں چسپان ہوجاتا ہے چستی چادر کو ہٹانے کے بعد یہ خوب صورت تحریر نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے انگریزی میں اس ٹیکنالوجی کوچاکنگ کہتے ہیں،دیواروں پر حکیموں کے اشتہارات اس طریقے سے چسپان کئے جاتے ہیں۔بعض اوقات سیاسی نعرے بھی اس طریقے سے مشتہر کئے جاتے ہیں دوست نے بتایا کہ ہماری یونیورسٹی میں پورا سال ایساہواکہ دیواروں پرہررات ایک مطالبہ چسپان کیاجاتا ”طوفان کورہا کرو“ہم یہ سمجھتے رہے کہ طوفان کوئی بڑا لیڈر ہوگا جسے پولیس نے گرفتار کیا یوگا اگلے سال پتہ لگاکہ طوفان ایک طالب علم تھا جو ہمارے ہاسٹل میں رہتا تھا اور وہ خود ہررات اپنی رہائی کے لئے اس طریقے سے وال چاکنگ کرتا تھا اس شغل سے ان کوبے پناہ شہرت ملی ہرطالب علم ان کے نام سے آشنا ہوایہ سنکر مجھے یاد آیا 1977میں جب ملک کے اندر سیاسی تعطل پیدا ہوا۔حکومت اورحزب اختلاف کے مذاکرات ہرروز بے نتیجہ ختم ہوتے رہے تو ایک رات کسی من چلے نے ایوان صدر کی دیواروں پروال چاکنگ کی تھی مطالبہ یہ تھا کہ ”فضل الہی چودھری کورہا کرو“جس کی رہائی کامطالبہ ہورہا تھا وہ صدر مملکت تھا ایوان صدر ان کی سرکاری رہائش گاہ تھی۔مطالبے کامطلب یہ تھا کہ صدر مملکت ایوان صدر میں بیٹھ کر سیاسی تعطل اور آئینی بحران کا تماشا کیوں دیکھ رہا ہے اپنا کردارکیوں ادا نہیں کرتا گویا صدر کواسمبلی توڑنے کااختیار دیاجائے ورنہ اُسے ایوان صدر کاقیدی ہی سمجھا جائے گا میں نے اپنے دوست سے پوچھارور بھائی کانعرہ اسطرح چاکنگ کے ذریعے کون مشہورکررہا ہے؟اس کی پُشت پرکوئی سیاسی پارٹی ہے کوئی مذہبی گروہ ہے کوئی سماجی تنظیم ہے یا کوئی ذمہ دار اور حساس شہری یہ اہم کام کررہا ہے؟میرے دوست نے بتایا کہ پشاور کا ایک حساس اور ذمہ دار شہری ہے جس نے یہ نعرہ مشہور کیا اس نعرے کی وجہ سے اس کانام”روربھائی“پڑگیا انہوں نے پشتو اور اردو الفاظ کوملاکر یہ ترکیب بنائی تھی پشتو میں بھائی کورور کہتے ہیں اردو میں رور کوبھائی کہتے ہیں دونوں کوملایا جائے تو”رور بھائی“ایک پیار بھری ترکیب بن جاتی ہے جس کا مطلب ہے”ہم ایک ہیں“ رور الگ اور بھائی الگ نہیں ہے ہم ایک جان دوقالب ہیں گویا ان کا جوکام ہے اہل سیاست جانیں میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے اس کوباضابطہ نعرہ بنانے کے لئے انہوں نے”محبت بھائی چارہ“ کے الفاظ کا اضافہ کیا۔یوں بات دلکش اور دل نشین ہوگئی اور یہ پشاور کی شناخت بن گئی آج وطن عزیز کوسماجی،سیاسی اور مذہبی صفوں میں اتحاد کے لئے اس نعرے کا سہارا لینے کی ضرورت ہے محبت کوعام کرنے کے لئے عوامی زبان میں اس سے بہتر نعرہ کہیں بھی نہیں ملے گا یہ بھی یاد رہے کہ نعرہ شہروں کے شہر قافلوں،کاروانوں اور قصوں داستانوں کے شہر پشاور نے دیا ہے سو پشاور کی سوغات کوملک بھر میں عام کریں ”رور بھائی کانعرہ محبت اوربھائی چارہ“