دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”استاد کی جدا ئی‘

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”استاد کی جدا ئی‘
استاد دنیا میں وہ ہستی ہے جس کی جدا?ی درد دیتی ہے کتنوں کے دلوں میں ان کی یادیں تازہ رہتی ہے کتنے لب ان کے ل? دعا?ں میں ہلتے ہیں کتنی آنکھیں ان کے ل? نیر بہاتی ہیں۔استاد کسی نہ کسی حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔استاد روح میں سمایا ہوا ہوتا ہے زندگی کی تعمیر میں ایک معمار کا کردار ادا کرتا ہے اس ل? محسن ہے اشرف خان استاد مرحوم ایک استاد تھے ایک عظیم استاد۔۔۔اپنے شاگردوں کے ل? درد رکھنے والے مخلص استاد اس ل? وہ یادیں چھوڑ گ? اورخوشگوار خلا چھوڑ گ? جس کو پر کرنے کے ل? ان کا متبادل ملنا مشکل ہوگا۔اشرف خان استاد 1955 میں تورکھو کے گا?ں ورکھوپ میں ایک متمول اور علمی خاندان میں پیدا ہو? اس زمانے میں نامی گرامی خاندان تک اپنے بچوں کی پڑھا?ی پر توجہ نہیں دے سکتے تھے اور ساتھ تعلیم کے اخراجات کا بندوبست کرنا بھی بہت بڑی قربانی تھی یہ معززاور علم دوست گھرانا تھا کہ اشرف خان استاد کو تعلیمی ماحولیاتی میسر آیا تھا انھوں نے پرا?مری تک گا?ں میں تعلیم حاصل کی پھر ہا?ی سکول بونی سے 1971 میں میٹرک پاس کیا۔گورنمنٹ کالج پشاور سے 1974 میں ایف اے کیا اور1976 میں بی اے کیا۔۔پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگریاں لی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا۔پہلی تقرری دروش میں ہو?ی پھر14 سال تک ہا?ی سکول کھوت میں ایس ایس ٹی پوسٹ پر کام کیا پھر ہا?ی سکول ورکھوپ، سنٹینیل ہا?ی سکول چترال اور پھر محکمہ تعلیم کے دفتر میں اے ایس ڈی او اور ایس ڈی ای او کی پوسٹوں پر کام کرتا رہا 2010 کو ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ پر ترقی ہو?ی تو ہا?ی سکول بمبوریت آیااٹھ مہنے بعد وہاں سے پھر دفتراور آخری تقرری ہا?ی سکول رشن میں بطور ہیڈ ماسٹر ہو?ی وہاں سے 2017 کو پنشن لے لی۔آپ نیاپنا آبا?ی گا?ں چھوڑ کر چترال ٹاون جغور میں رہاش اختیار کی تھی۔۔آپ کی شریک حیات بھی استاد ہیں اور عظیم استاد یحی پرنسپل صاحب کی بیٹی ہیں گویا اشرف خان صاحب کا گھرانہ علم و عمل کی اکیڈیمی تھا۔اشرف خان صاحب بڑے سیدھے سادھے اور کھریانسان تھے اپنے فرا?ض منصبی کو عبادت سمجھتے محنتی استاد تھے شاگردوں کی تربیت پر خاص توجہ دیتے اپنے ادارے کو فعال اور مثالی بنانے کی بھرپور کوشش کرتے۔بڑے سلیقہ مند تھے قناعت اس کی شان تھی۔سکول کی عمارت کو دلہن کی طرح سجاتے خود لان پر تنکے اور گھاس پوس اٹھاتے اور نوکروں کو ہدایت کرتے کہ یہ ہمارا گھرہے۔بچوں کی صفا?ی ستھرا?ی اور نظم و ضبط کا بڑا خیال رکھتے۔وقت کے بڑے پابند تھے خوش لباس اور بزلہ سنج تھے وجیہ شخصیت تھی چہرے پر مسکراہٹ پھیلی رہتی یار باش تھے دوستوں اور سٹاف سے بڑے احترام سے ملتے۔مزاج میں انکساری تھی بات مانتے اور بات منواتے۔ان کی میز پر کو?ی فا?ل پڑی نہ رہتی بڑے ذمہ دار تھے اکثر کام خود نمٹاتے پروٹوکول محسوس نہ کرتے۔ہر ایک کے دکھ درد میں شریک رہتے مجھے ان کے سٹاف میں رہنے کا موقع ملا تھا میں نے ان سے متحرک رہنا سیکھا۔سادھا زندگی گزار تے۔اپنے بچوں سے بڑی محبت تھی ان کو دوستوں جیسا وقت دیتے فاصلہ نہ رکھتے۔ایک مربی اور استاد میں جو اوصاف ہوتے ہیں وہ اشرف خان صاحب کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھے۔جب بھی ملتے بڑے خلوص سے ملتے۔ان کی صحت قابل رشک تھی سدا بہار شخصیت تھے چہریرا بدن لمبوترا قد چاند چہرہ بال بناتے ٹوپی کم استعمال کرتے۔فٹبال اور ولی بال کھیلا کرتے۔یادوں کی کتاب کھولتے تو بڑے مزے کے قصے سناتے محفل میں کھل اٹھتی اہل محفل بوریت محسوس نہ کرتے۔اشرف خان صاحب کے سینے میں اچانک درد اٹھا۔۔۔۔پشاور پہنچایا گیا۔۔۔۔ہسپتال میں سب چاہنے والے ساتھ تھے۔۔۔ خاص کر ان کی چہیتی بچی جو پشاور یونیورسٹی میں پڑھتی ہے ابو کے ساتھ تھی۔یہ ہنستا مسکراتا چہرہ اپریشن کے ل? اپریشن روم لے جایا گیا لیکن وہاں رب کا حکم پہنچا واپس چمکتی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کی جگہ بند آنکھیں اور بجھتا چہرہ آیا امر الہی کے آگے انسان بے بس ہے تابعداروں کا سر تسلیم خم ہے یہی عبودیت ہے۔سلام اس بچی کو جو کمال ہمت سے اپنے ابو کے آخری وقت میں ساتھ رہی۔ اشرف خان صاحب آسانی سے بھلا? نہیں جاسکتے۔۔۔کیونکہ یہ ایک ”استاد کی جدا?ی ہے“ اللہ ان کو جنت فردوس میں مقام عطا کرے۔۔۔