دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔”سال ختم ہونے میں“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔”سال ختم ہونے میں“
ایک سال اور ختم ہونے میں چار دن رہ گ? وطن عزیز کی عمر 75سال ہونے کو ہے جس ملک کو وجود دینے میں ہم نے سات سال صرف کی? اس کو ترقی دینے میں 75سال صرف کی? پھر بھی ترقی کا دور دورتک کو?ی نام و نشان نہیں طرہ یہ کہ بے چینیاں، غیر یقینیاں، غیر محفوظ ہونے کے احساسات، غلامی کی پریکٹسیں، دیوالیہ پن کا خوف، قرضے نہ ملنے کا ڈر، اقتدار کی کھینچاتانیاں،گالم گلوچ، نفرتیں، خوفناک منصوبہ بندیاں، شرمناک چالیں، بقا تک دا? پہ۔۔۔۔پھر ہم پرانے سال بھول کر نئے سال کا انتظار کر رہے ہیں ہم نے اس خاک کے ساتھ کیا کیا ہے؟۔۔ہم خود غرض قوم،ہم ہوس کے پجاری، ہم غیرت سے عاری۔۔۔چاہی? تھا کہ ہم ان قربانیوں کی لاج رکھتے۔۔۔ہم صداقت کا امین بنتے۔۔۔ہمیں ترقی کرنے سے روکتا کون ہے؟ ہمارے آگے بڑھنے میں رکاوٹ کون ہے؟ ہم کس کو گالیاں دے رہے ہیں؟ ہمیں دیوالیہ پن کی حد تک کس نے پہنچایا ہے؟ ہمیں غبن کا درس کون دے رہا ہے؟۔ہم اپنے فرا?ض کے ساتھ مخلص کیوں نہیں ہیں؟۔ہم جیسوں کو قرآن نے حیوان کہا۔۔دل ہیں سوچتے نہیں، آنکھیں ہیں دیکھتے نہیں، کان ہیں سنتے نہیں ہیں یہ حیوان ہیں بلکہ حیوانوں سے بھی بدترین ہیں۔ہم سال منا رہے ہیں مہینے منا رہے ہیں دن منا رہے ہیں۔ہمیں حق ہی نہیں پہنچتا ایسا کرنے کا۔۔لوگ اپنی رسوا?یاں منایا نہیں کرتے۔ہم میں کونسی تبدیلی آ?ی ہم نے کونسے ایجادات کی?۔ہم نے کونسی ترقی کی۔۔کتنے روڈ بنے کتنے کارخانے بنے کتنے پلوں کی مرمت ہو?ی۔۔تعلیمی اداروں سے کتنے گریجویٹ نکلے جو نقل کی پیداوار نہیں ہیں کتنے بچوں کی درست نہج پہ پرورش ہو?ی۔۔کتنے اساتذہ نے جان کھپا کھپا کے پڑھا?۔۔کتنے ڈاکٹروں نے غریبوں کی مفت علاج کی?۔کتنے آفیسر شاہی نے بد عنوانیاں نہیں کیں۔کتنی نوکریاں اہلیت کی بنیاد پر ملیں۔کتنے بیروزگار برسر روزگار ہو? کتنے چولہے جلے۔۔مہینگا?ی کس حد تک کم ہو?ی۔۔ہم بحیثیت قوم بھی سوچیں اور بحیثیت فرد بھی۔۔حقیقت میں ہم نے ایک قیمتی سال گنوا دی?۔۔ہم پیچھے رہ گ? اور پیچھے۔۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم میں یوں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ تباہ ہوجاتی ہیں۔آج ہمارے یہاں خوشیوں کی جگہ افسردگی ہے۔چین کی جگہ بے چینی ہے۔تنخواہ نہ ملنے کا اندیشہ ہے مہنگائی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ہمیں یقین ہے کہ نیا سال یہی کچھ لا? گا کیونکہ ہم میں عزم نہیں۔۔ہمیں اپنی کمزوریوں کا ادراک نہیں۔ترقی و تنزل کو قرآن نے دنوں کا الٹ پھیر کہا۔اگر کو?ی قوم سبق سیکھ کر آگے بڑھے تو دن پھر جاتے ہیں ورنہ مٹی خراب ہوجاتی ہے۔۔۔فطرت کے قوانین اٹل ہیں۔اگر کو?ی قوم صداقت امانت دیانت عدل اور خوداحتسابی جیسے اوصاف سے متآصف نہ ہو وہ مضبوط نہیں ہو سکتی اور نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔ایک سال گزر گیا ہماری نااہلی کا سال۔ایک سال آنیوالا ہے لیکن ہم بدلنے والے نہیں۔صرف کلینڈر بدلے گا۔۔بہاریں آ?یں گی افسردہ جا?یں گی خزان روتی ہو?ی جا? گی۔صداقت امانت اور دیانت روتی رہیں گی عدل آہ بھرے گا ترقی راستے سے واپس ہوگی۔۔ہم نئے دنوں کے شمار کی خوشی منا?یں گے۔ہمارے بڑے بدلتے نہیں ہیں۔۔ہم بدلتے نہیں ہیں۔اللہ ہمارے حال پہ رحم فرما?۔نئے سال کا نئے عزم کے ساتھ استقبال کرنا پڑتا ہے۔کچھ خواب ہوتے ہیں کچھ ہمت کی داستانیں رقم کرنی پڑتی ہیں تب نیا سال مبارک بن کے آتا ہے۔۔