دادبیداد َ َ۔۔۔۔ََڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔۔وفاداری بشرط استواری

Print Friendly, PDF & Email

دادبیداد َ َ۔۔۔۔ََڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔۔وفاداری بشرط استواری
وفاکالفظ ہماری ہر زبان کے روزمرہ میں شامل ہے وفاداری اوربے وفائی بھی ہماری زبانوں میں مستعمل ہیں۔یہ عربی کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں پورہ کیا،انجام تک پہنچایا ہمارے ہاں پورہ کرنے اور انجام تک پہنچانے والے کووفادار کہاجاتا ہے درمیان میں راستہ بدلنے والے کو بے وفاکاطعنہ دیاجاتا ہے۔برصغیر کے قدیم شعراء میں بھگت کبیرداس(1398_1518_)ہندو اور سکھ مذاہب کے بڑے شعراء میں شمارہوتے ہیں۔ان کے کلام میں ایسا فلسفہ ہے جو ان سے ایک صدی پہلے قونیہ ترکی میں گذرے ہوئے مسلمان شاعر مولانا جلال الدین رومی کے ہاں تصوف کی صورت میں ملتا ہے بھگت کبیرداس نے حکایتوں کے ذریعے بڑے دلنشین اور سلیس زبان میں ایسے سبق آموز پیغامات دئیے جوفارسی میں شیخ سعدی شیرازی(1210_91ء)کے ہاں ہمیں ملتے ہیں۔
وفا کے عنوان سے بھگت کبیر نے ایک حکایت بیان کی ہے جس میں جلتے ہوئے درخت کی شاخ پر بیٹھے پرندے کے ساتھ ان کامکالمہ ہے۔کبیرداس کہتاہے میں ایک درخت کے پاس سے گذرا جس کوآگ لگی ہوئی تھی درخت کاتنا جل رہاتھا آگ شاخوں کوچھورہی تھی ایک پرندہ شاخ پر بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا میں نے پرندے سے کہا درخت جل رہا ہے شاخیں بھی جلنے والی ہیں تم اُڑ کیوں نہیں جاتے؟خود کو جلاتے کیوں ہو؟پرندے نے مجھ سے پوچھا تم نے کبھی عشق کیا ہے؟میں نے کوئی جواب نہیں دیا،پرندے نے کہا اگرتم نے عشق کیاہوتا تویہ سوال مجھ سے ہرگزنہ پوچھتے،میں نے کہا عشق سے اس کا کیا تعلق ہے؟پرندے نے کہا تم نہیں سمجھوگے جلنے کاتعلق عشق ہی سے ہے مجھے اس درخت سے عشق ہے،پیار ہے،محبت ہے میں اس کو جلتاہوا چھوڑ کر اُڑجانے کے بجائے اس کی شاخوں کے ساتھ جل کرخاکستر ہوناچاہتا ہوں میں نے کہایہ بات عقل کے خلاف ہے پرندے نے کہا عشق میں ایسا ہی ہوتا ہے۔یہ وہ درخت ہے جس کی شاخوں نے میرے ماں باپ کو گھونسلے کی جگہ دی،یہ وہ درخت ہے جس کی شاخ پربنے ہوئے گھونسلے میں میرے ماں باپ نے مجھے اُس وقت پالاجب میرے پر نہیں آئے تھے میں اُڑنے کے قابل نہیں تھا۔یہ وہ درخت ہے جس کی شاخوں پربسیرا کرکے میری عمر گذری ہے اس کے ساتھ مجھے عشق ہے یہ میرا محبوب ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس کو جلتا ہوا دیکھوں اوراپنی ننھی جان بچاکر دوسرے درخت کی شاخ پر جابیٹھوں!نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میں ایسا نہیں کرسکتا بھگت کبیرداس نے اس حکایت کے ذریعے وفاداری کا سبق سکھایا ہے شیخ سعدی شیرازی غزل کے شعر میں اس فلسفے کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں
”اے مرغ سحر عشق ز پروانہ بیاموز کاں سوختہ راجان شدوآواز نیامد
اے چہچہانے والے بلبل!تم کو عشق سیکھنا ہے تو پروانے سے سیکھو وہ چپ چاپ محبوب کے شغلوں میں جل کر راکھ ہوجاتا ہے فریاد نہیں کرتا یہ عشق کا بنیادی تقاضا ہے اور اس تقاضے کو وفا کانام دیا جاتا ہے بھگت کبیر داس کی حکایت مجھے ایک خبر پڑھنے کے بعد یاد آئی خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے ہزاروں سیاستدانوں اور اعلیٰ افسیروں نے بیرونی ممالک کی شہریت حاصل کرلی ہے کسی بھی مصیبت اور تکلیف کا وقت آئے گا تو یہ لوگ پاکستان سے اُڑان بھرلینگے ان کا اور ان کے بچوں کا مستقبل پاکستان سے باہر محفوظ ہوگا،پاکستان کے لئے وہ لوگ قربانی دینگے جن کو پاکستان میں کوئی سیاسی اور انتظامی عہدہ نہیں ملا کیونکہ وفاداری عشق کا ثمر ہے عشق کا تقاضا ہے پاکستان سے اس طبقے کو عشق ہے جو سیاست اور حکومت میں کھبی نہیں آیا یہ طبقہ عشق کے اداب جانتاہے،وفاداری کے اداب جانتا ہے یہ طبقہ جل کرراکھ ہوجائے گا مرزا غالب نے یہ بات بھگت کبیر داس کی زبان میں کہی ہے
وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے۔۔۔مرے بت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑدو برہم کو