سوال کا المیہ۔۔۔۔شمس الرحمن تاجک

Print Friendly, PDF & Email

سوال کا المیہ۔۔۔۔شمس الرحمن تاجک
تمام خود ساختہ ”رہنما“ اور ان کے حامی ذاتی چورن بیچنے میں مصروف ہیں۔ ملک معاش کے ساتھ ہر ضروری پلیٹ فارم پر پٹ رہا ہے۔ ایک دوسرے کو ایجنٹ ثابت کرتے کرتے منظر پر موجود تمام رہنما وہی کام سرانجام دینے لگے ہیں جو صرف کسی دشمن کا ایجنٹ ہی کرسکتا ہے۔ عوام، قوم یا مشترکہ مفادات کے بجائے ذات کی فوقیت سب سے بلند ہوپھر عوام نہ ہی ملک نظر آئے گا۔آپ رہبری کا دعوی کیسے کرسکتے ہیں۔ کبھی غور کیا ہے آپ نے کہ جس کو آپ عروجسمجھ رہے ہیں وہیں سے آپ کی رہبری کے چیتھڑے ایسے لہرا رہے ہیں کہ نیچے بیٹھے مخلص پاکستانی آپ کورہبر سمجھ بھی لیں تو ان چیتھڑوں کو جوڑ کر پاکستان بنانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ افسوس صد افسوس۔
تاریخ کے اوراق خونین تلواروں کی بھلے گواہی دیں، اُن تلواروں کی نوک سے ٹپکتا خون فاتح کو مسند اقتدار بخشا کرتا تھا۔ تاریخ کے وہ بھیڑیے بھائیوں کی گردنیں کسی فائدے کے لئے اتارتے تھے کیا آپ میں سے کسی کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ جس مسند کے لئے ایک دوسرے کی اتارنے میں لگے ہو وہ مسند، وہ تخت طاؤس آہستہ آہستہ غلام گردشوں کی طرف سرک رہا ہے جہاں اقتدار کے ہوس میں مبتلا وہ مخلوق رہتی ہے جو ہر ہاتھ آنے والی چیز پر قبضہ کرنا اپنا حق سمجھتی ہے چاہئے وہ آپ کے مسند کا ڈھیلا پڑتاایک میخ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ ان کے لئے غنیمت ہے بس۔
سوال یہ بھی ہے کہ انا کی تسکین کے لئے کوئی اپنا ملک داؤ پر لگا سکتا ہے؟ عقل یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں،یہ ملک بھلے وراثت میں ملی ہو۔ یہ یقین کیونکر ہوسکتا ہے کہ آپ بائیس کروڑ لوگوں کی وراثت بیچ کھاسکتے ہیں۔ اور وہ چپ رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی حرکتیں ہمیشہ سے تاریخ کے متنازعہ کرداروں کو مہنگی پڑی ہیں۔ ملک کے باسیوں کا زندگی اور موت کے درمیان جو ایک رشتہ صرف سانسوں کی صورت میں آپ سب نے اٹکا کر رکھا ہے اس کو اس مقام سے آگے جانے نہ ہی دیا جائے تو ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔ مہنگائی ہو، انارکی یا پھر عزتوں کا نیلام۔ سب قابل برداشت سہی،حد تو مقرر ہے نا۔ بلی جیسی مخلوق بھی یقینی موت کے شکنجے میں پھنسے کے بعد کم از کم ایک دفعہ شیر پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ مرنا تو ویسے بھی ہے تو کیوں نہ ایک دفعہ جینے کی آخری کوشش کی جائے۔ بائیس کروڑ لوگ جینے کی ایک دفعہ بھی کوشش نہیں کریں گے۔کیونکر اس پر یقین کیا جاسکتاہے۔؟
عمر کی آدھی سے زیادہ بہاریں دیکھنے کے بعد عقلی مشاہدہ یہ تسلیم کرچکا ہے کہ ملک کا خیر خواہ کوئی نہیں۔یہ سب خود ساختہ لیڈرز ذات کے خول سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں۔اس بات سے ہی اندازہ لگائیں کہ ملک کا نوے فیصد علاقہ ڈوب چکا ہے مگر ہمارے ”رہنما“ شہباز پکڑنے اور چھوڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک شہباز بائیس کروڑ عوام سے زیادہ قیمتی کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا یہ تسلیم کیا جائے کہ ہمارے ”رہنماؤں“ کی نظر میں شہباز اس لئے قیمتی ہے کہ وہ انہی میں سے ہے۔ نوے فیصد ڈوبے ہوئے ملک کے بائیس کروڑ لوگ اس لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتے کہ وہ کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کر ہیں ہی نہیں۔ بھلا بائیس کروڑ کیڑے مکوڑوں کے لئے اشرف الخلوقات میں سے ایک بشر کی قربانی کیسے دی جاسکتی ہے۔یہاں ضمناً ہم یہ بات کرسکتے ہیں کہ عام آدمی ڈوبتے ملک کے بارے میں ذمہ داروں سے کہیں سوال ہی نہ کربیٹھے۔ اس سوال سے بچنے کے لئے شہبازو عقاب والا ڈرامہ رچایا تو نہیں گیا۔
اس بات کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر سوچیں کہ ”اب ملک کا کیا ہوگا’‘ اس سے پہلے یہ فیصلہ ہوجائے یہ ملک ہے کس کا۔ کوئی لیڈر اپنی ہی قوم کو کیسے لوٹ سکتا ہے۔ کوئی رہنما ملکی ترقی کی تمام راہیں کیسے مسدود کرسکتا ہے۔ ملک بچانے یا بنانے کا دعوی کرنے والے کیسے اس راہ پر چل سکتے ہیں جس سے دشمنوں کو خوشی ہو اور دوستوں کو دکھ۔ اگر آپ سب عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے برسرپیکار ہیں تو گزشتہ 70 سالوں سے کوئی فرق نظر کیوں نہیں آرہا ہے۔ کچھ نہیں تو کم از کم سیاسی بیداری اورسیاسی شعور تو اس قوم کا حق بنتا ہے مگر آپ سب نے مل کر سیاسی شعور کو ”زندہ باد“ کے نعرے سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ وجہ ایک ہی ہے کہ آپ شور کے نمائندے ہیں شور آپ کے تمام خامیوں کا مداوا ہے۔ آپ شعور کو کبھی اس معاشرے میں پنپنے نہیں دیں گے۔آگاہی کی غیر موجودگی آپ سب کو سوٹ کرتا ہے مگر اب عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ عوام ہو، ملک ہویا ان دونوں کی عزت۔ بچائے گا کون اور بیچے گا کون۔