دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔۔،،اور پھر انتخابات کے دن ”

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔۔،،اور پھر انتخابات کے دن ”
وطن عزیز کے میرے صوبے کے چند اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں۔قوم کے چند سپوت مردو خواتین مہینوں سے انتخابی مقابلے جیتنے کی تگ و دو کر رہے ہیں دن رات ہر گھڑی وہ اور ان کے کارندے گلی گلی گھوم پھر رہے ہیں ان کے نام کے بینرز اور اشتھارات سے درو دیوار سجے ہیں ہر طرف دوڑ دھوپ ہے۔۔کچھ پارٹی کے لوگ ہیں کچھ آزاد ہیں۔پارٹیاں اپنا ماضی دھرا رہی ہیں آزاد لوگ پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہ?یں عوام ہیں کہ جھوٹ بولتیبولتے جھوٹے وعدے کرتے کرتے تھک گ? ہیں۔کارنر میٹنگیں ہیں اجتماعات ہیں۔رشتے ناطے تازہ کی? جارہے ہیں دوستیاں نبھا?ی جا رہی ہیں۔الیکشن کے عملے کو تربیت دی گ? ہے الیکشن کے ہدایت نامے میں سختی سے ہدایت لکھی گ? ہے کہ صاف شفاف الیکشن ہو۔۔الیکشن کا دن آ? گا۔ایک دن پہلے الیکشن کے سامان انتخابات کے مرکزوں میں پہنچا? جا?یں گے۔۔عملہ پہنچے گا۔حفاظتی دستے ہونگے صبح سویرے عملہ مستعد ہوگا اور فرض نبھا رہا ہوگا ایک اہم قومی فریضہ نبھایا جا? گا۔ووٹر آ?ینگے پولنگ شروع ہوگی۔ یہ اس سرگرمی کا خلاصہ ہے سوال یہ نہیں ہے کہ بس ہوگیا سو ہو گیا سوال یہ ہے کہ کیسا ہوگیا کیا قوم نے صداقت کا ثبوت دیا؟ کیا نمایندوں نے درست نہج پہ اپنے أپ کو پیش کی?؟۔اس جدو جہد کے دوران کتنا سچ بولا گیا کتنا جھوٹ بولا گیا۔کتنی منافقت ہو?ی کتنی صداقت ہو?ی۔کتنے لوگوں کے ضمیروں کا سودا ہوا کتنوں نے اپنے أپ کو بھیج ڈالا۔کتنوں نے کتنوں کو دھوکہ دیا کتنی حماقتیں ہو?یں۔کہاں کہاں مناسب اور اہل نما?یندوں کو چنا گیا۔کس پارٹی پر لوگوں نے بھروسہ کیا کس کو رد کیا۔یہ سب سوالیہ نشان ہیں اور ایسے سوال جن کا کو?ی جواب نہیں۔۔بتانے والوں نے بلدیہ کے پچھلے ٹرم کے بارے میں بتایا کہ ہر وی سی کو چار سال میں پنساٹھ پنساٹھ لاکھ روپے دی? گ? مدت ختم ہو?ی تو کسی نے پوچھا تک نہیں کہ یہ پیسیکہاں خرچ ہو? کتنا کام ہوا۔اب بھی ایسا ہی ہوگا۔۔پھر منتخب نما?یندوں کا سراغ نہ ملے گا بندر بانٹ ہوگا اور فنڈ کا پتہ نہ چلے گا۔۔یہ ہے اس قوم کا المیہ۔۔۔اس کا کو?ی کام ڈھنگ کا نہیں ہوتا۔اس کے قومی اور صوبا?ی اسمبلیوں کے ممبروں کی حالت ہے کہ بھیجے جاتے ہیں خریدے جاتے ہیں۔وزیر اعظم برملا کہتا ہے کہ خریدو فروخت جاری ہے۔ بڑے افسوس سے یہ رونا رو رہا ہے۔۔۔ترس آتا ہے وہ جو بھی اس قوم کا وزیر اعظم ہے۔۔یہ لوگ ایوان میں اگر تبدیلی لا?ینگے بھی تو قوم پوچھتی ہے کہ افراد بدلیں نگے یا نظام بدلے گا اگر نظام کا ٹھیک نہیں ہونا تو افراد بدل کے کیا کریں گے۔ہم نے بہت تجربہ کیا۔ہماری قسمت میں زہرپینے کے سوا ہمیں ملا ہی کیا ہے۔۔لے دیکے دنیاکے سامنے اپنے آپ کو آزاد کہتے آرہیہیں بس یہ جذبہ بھی شرم کے مارے ٹھنڈپڑ جایے گا۔۔جوچہرے سامنے ہیں ان کو کام کرنے دو ان کی مدت پوری ہونے دو۔پھر آپ کا مسلہ نہیں ہمارا مسلہ ہے۔۔ہماری قسمت کیا پلٹا کھاتی ہے یہ ہم دیکھیں گے۔ہم امید نہیں رکھ سکتے کہ انتخابات کے دن تبدیلی کا دن ہوگا۔۔بس چہریبدلیں گے ہمارے آزمایے ہوے چہرے۔۔اسی نظام کے تحت ان چہروں پر بھی گرد پڑ جا? گا اور ہم بس سب کچھ بھول جا?یں گے۔۔۔انتخابات کے دن یہی کچھ ہوگا۔ہم امید نہیں باندھتے اس لی? کہ انقلاب اور انقلابی تبدیلی کی امید نہیں۔یہ سب باتیں انتخابی جدو جہدیوں کو اچھی نہیں لگیں گی۔لیکن ان کو اپنی پڑی ہے ہمیں اپنی پڑی ہے۔۔۔
اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے۔۔۔
یہ سب دھواں ہے کو?ی آسمان تھوڑی ہے۔۔۔
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے۔۔
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے۔۔