دھڑکنوں کی زبان ،،،،،محمد جاوید حیات،،،،،،کیا ہم ریاست کے نوکر نہیں ہیں ”

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان ،،،،،محمد جاوید حیات،،،،،،کیا ہم ریاست کے نوکر نہیں ہیں ”
گاوں میں ایک جگہ فوتگی ہوئی تھی غمزدہ خاندان کے ساتھ ہمدردی کی بنیاد پر سارے گاو?ں والے اس گھر میں جمع تھے تعزیت کے لیے آنے والوں کا استقبال اور ان کو رخصت کر رہے تھے۔بھانت بھانت کے لوگ تھے۔بوڑھے جوان، امیر غریب، سیاسی لوگ،عام عوام، ریٹائرڈ فوجی صوبیدار،پولیس آفیسرز،محکمہ صحت کے اہلکار،محکمہ جنگلات کے لوگ،پٹواری، کونسا محکمہ نہ تھا کہ اس کا کوئی نہ کوئی اہلکار وہاں موجود نہ تھا ایک استاد بھی ایک کونے میں کرسی پہ دب کے بیٹھا تھا۔۔مختلف موضوعات پر بحثیں ہورہی تھیں۔دلایل دیے جاتے۔باتوں باتوں میں ایک بانکے دیہاتی نے کہا کہ چوہتر سالوں میں ہمیں کسی سے کوئی خاص فایدہ نہیں ہوا۔۔اتنے میں ایک ریٹایرڈ صوبیدار کا پارہ چھڑا۔۔گرجدار آواز میں کہا خاموش ہوجاو اگر فوج نہ ہوگی تو تمہارا نام و نشان مٹ جائیگا۔انھوں نے 1948ء65, 71, کارگل،ضرب عضب،رد الفساد وغیرہ گن کر کہا کہ ان معرکوں میں تمہارے پرخچے اڑ جاتے تمہارا وجود ختم ہوجاتا۔۔یہ قوم بڑا نمک حرام ہے یہ احسان نہیں جانتی۔۔صوبیدار کی تقریر ختم ہوئی تو ڈی ایس پی نے مونچھوں کو تاو دیا۔اگر پولیس نہ ہو تو چور اچکے، دہشت گرد، ڈاکو لٹیرے ظالم سماج تمہارا جینا حرام کر دیتے۔تمہاری دھائی کو سنتا تمہاری دادرسی کہاں سے ہوتی۔۔اتنے میں محکمہ صحت گویا ہوا۔تمہاری جان پہ بنتی ہے تو ڈاکٹر تمہاری آہ کائنات سے ٹکرا کر واپس آتی ہے تو ڈاکٹر تمہیں نئی زندگی دینے والے ڈاکٹر۔۔کسی انجنیر کی آواز گونجی۔۔یہ تعمیر یہ عمارتیں، یہ سڑکیں یہ ڈیم یہ ٹریفک یہ کہاں سے ممکن ہوتی۔باری باری سارے محکمے کے لوگوں نے اپنے احسانات جتایے گویا کہ یہ نہ ہوں تو ریاست بے دست و پا ہو جایے۔۔استاد سر جھکایے خاموش تھا۔حاضریں کا جوش قدرے کم ہوا تو ایک بزرگ نے استاد کو مخاطب کیا۔۔استاد بھائی تم کیوں خاموش ہو۔۔۔ کچھ بولو! استاد نے سر اٹھا کر کہا۔۔صاحب میں کچھ نہیں بول سکتا کیونکہ میرا کسی پر کوء احسان نہیں۔۔ہاں اس ریاست کا مجھ پر احسان ہے۔۔بھائی میں استاد ہوں میں نے کبھی بھی ایک کلاس بھی مفت نہیں لیا۔مجھے پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے۔۔مہینہ پورا ہوجایے تو ریاست میرا معاوضہ سکول لا کر میرے ہاتھ میں رکھتی ہے۔۔میرے اکاونٹ میں میرا معاوضہ جمع ہوتا ہے۔میں اگر ٹیچر نہ بنتا تو کوئی اور بنتا۔۔میں کوئی کمال نہیں کر رہا اس لیے خاموش ہوں۔۔یہ بد قسمت ریاست ہے اس لیے سب اس پہ احسان جتاتے ہیں۔صوبیدار صاحب نے بڑی دھواں دار تقریر کی کوئی اس سے پوچھے کہ اس کے ذمہ قوم اورملک کی حفاظت تھی کیا اس نے بلاعوض یہ سب کچھ کیا۔۔کیا اس کو تنخواہ نہیں ملتی تھی۔۔ کیا اس کو رہایش کنونس مراعات اور پنشن نہیں ملتا۔۔کیا اس کا کوئی جنرل مراعات سے اور پرتعیش زندگی سے محروم ہے کیا ریاست نے اس کی سہولیات میں کوئی کوتاہی کی۔ڈاکٹر سے پوچھیں کہ اس نے مفت کتنے دن ڈیوٹی کی۔۔ کتنے مریض مفت میں چیک کیا۔انجینر سے پوچھیں کہ وہ کس سہولت سے محروم ہے۔عوامی نمایندہ قوم کا خادم ہوتا ہے لیکن یہ کیسا خادم ہے اگر کسی کو اقتدار مل گیا تو سڑک بنا کے کہتا ہے میں نے کیا سکول کی تعمیر کرکے کہتا ہے میں نے کیا۔اس سے کوئی پوچھے وہ ریاست کے پیسے کدھر گیے اس دولت کا کیا ہوا۔اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔اسرائیل نے اٹم بم بنایا اس سے پوچھے کس نے بنایا جواب ہوگا ریاست نے۔۔ہمارے ہاں اٹم بم بنا۔۔آگے کریڈٹ کی جنگ ہے کہ کس نے بنایا۔۔بنانے والا حبس بے جا میں تھا اس جہان کو سدھارا۔سڑک بنتی ہے بس چلاتے ہیں آگے کریڈٹ کی جنگ چلتی ہے۔احسان جتاتے ہیں۔ریاست کا وجود درمیان سے غائب ہے۔بابا میں خاموش کیوں نہ ہوں۔۔ اگر کسی ریاست کے ملازم اس کا شکر گزار ہونے کی بجائے اس پر احسان جتائیں تو تباہی آیے گی۔میں استاد ہوں میں کہوں کہ اگر میں نہ ہوں تو قوم ان پڑھ ہوجایے گی اگر پولیس کہے کہ وہ اگر وہ نہ ہو تو قوم کی جان و مال محفوظ نہ ہو اگر فوج کہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ریاست کی سرحدیں محفوظ نہ ہوں اگر ڈاکٹر کہے کہ اگر وہ نہ ہو تو عوام ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے۔تو ریاست کیا کرے۔۔ان سے پوچھنے والا کون ہوگا کہ تم کس درد کی دوا ہو۔۔تم ان خدمات کے معاوضہ لیتے ہو تم کس پر احسان کر رہے ہو تمہارے اوقات کیا ہیں۔تمہیں اس ریاست کا احسان مند ہونا چاہیے کہ یہ تمہاری ماں ہے یہ تمہارے جینے کا سامان تمہیں مہیا کرتی ہے۔چچا مجھے اس ریاست پہ ترس آتا ہے۔۔اسی کے باشندے اس کو چیرپھاڑ کھاتے ہیں پھر اس پر احسان جتاتے ہیں۔ان کو اپنی کارکردگی کا کوئی پتہ نہیں۔زندہ قومیں اپنی ریاست کا وفادار ہوتی ہیں۔ریاست کے کارکن اس کیعوام کی خدمت کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔افسوس چچا یہ سب لوگ جو اس محفل میں بیٹھے ہیں یہ کس پر احسان کر رہے ہیں چچا یہ شکر کیوں نہیں کرتے۔۔کیا یہ ریاست کے نوکر نہیں۔۔۔چچا کو استاد کی باتیں بہت پسند آئیں۔۔۔
آس نے دبے الفاظ میں کہا
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی