داد بیداد۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔معدنیات کی دولت

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔معدنیات کی دولت
ایک بڑھیا کی کہا نی ہے بڑھیا اپنی جھو نپڑی میں اکیلی رہتی تھی بیٹا ہر مہینے اس کو روزمرہ ضروریات کے لئے معقول رقم ایک لفا فے میں ڈال کر پہنچا تاتھا بڑھیا لفا فے کو چوم کر اپنی پیشانی سے لگا تی تھی آنکھوں پر مل کر دوبارہ دیکھتی تھی اور ایک صندوق میں ڈال کر تا لہ لگا تی تھی وقت اس طرح کسمپرسی کی حا لت میں گذرتا رپا یہاں تک کہ بڑھیا کی مو ت واقع ہوئی، لو گوں نے بڑھیا کو دفنا نے کے بعد صندوق کھو لا تو اس میں درجنوں لفا فے تھے اور لفا فوں میں لا کھوں روپے تھے جو بڑھیا نے چوم کر پیار اور محبت سے رکھے ہوئے تھے بیٹے نے اس لئے بھیجا تھا کہ بڑھیا کی زندگی میں کوئی سہو لت ہو لیکن ان لفا فوں سے بڑھیا کی زند گی میں کوئی سہو لت نہیں آئی وطن عزیز پا کستان میں بلو چستان کے ریکو ڈک سے لیکر سند ھ کے تھر کول اور چترال کے فولاد، یو رینیم یا سونے کے معدنی ذخا ئر تک سوئی اور کر ک کے گیس سے لیکر سندھ اور بلو چستان کے تیل تک ہر قسم کی دولت قدرت کی طرف سے مو جو د ہے لیکن ہم نے 72سالوں سے ان کو صندوق میں بند کر کے تا لا لگا یا ہوا ہے اور قومی زندگی مر زا غالب کی طرح یو ں گذر تی ہے ؎
قرض کی پیتے تھے مئے اور کہتے تھے ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہماری حکومتوں نے ریکو ڈک میں سونے کے ذخا ئر سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھا یا جتنا ہم نے کروڑوں ڈالروں میں اس کا جر ما نہ اداکیا ہے ایسے میں خیبر پختونخوا کی صو بائی حکومت نے معدنیات سے فائدہ اٹھا نے کے لئے انقلا بی قدم اٹھا تے ہوئے معدنیات سے مالا مال پہاڑوں اور صحراوں کی لیز(Lease) کا آن لا ئن سسٹم متعارف کرایا ہے خیبر پختونخوا کی سرکاری ویب سائیٹ پر معدنیات کی لیز کے قواعد وضوابط کے ساتھ نقشے اور روابط (maps & coordinates) بھی دیئے گئے ہیں کسی دفتر کا چکر لگا نے کی ضرورت نہیں کسی کی مٹھی گرم کرنے کی حا جت نہیں معدنیات کی لیز میں دلچسپی رکھنے والے کاروباری شہری اس ویب سائیٹ سے معلو مات حا صل کر کے جگہ پسند کر کے آن لا ئن در خواست جمع کر سکتے ہیں یوں گھر بیٹھ کر کاروباری خواتین اور حضرات سونے، فولاد، گیس، تیل اور یو رینیم کے قیمتی ذخا ئر کے ما لک بن سکتے ہیں گذشتہ ڈیڑھ سال کا تجربہ اور مشا ہدہ یہ ہے کہ امریکی، بر طانوی اور چینی کمپنیاں آن لائن فارم جمع کر کے لا کھوں مر بع کلو میٹر کے رقبوں کا لیز لے لیتی ہیں پا کستانی سرمایہ کار اس میں دلچسپی نہیں لیتے مقا می لو گ شکا یت کر تے ہیں کہ ہمارے پاس سر ما یہ نہیں لیز حا صل کرنے کے بعد ہمیں کیا ملے گا، سرحد چیمبر آف کا مر س اینڈانڈسٹری کے کوارڈینیٹر سرتاج احمد کا کہنا ہے کہ ہماری مثال اُس بڑھیا سے مختلف نہیں جو نو ٹوں سے بھرے لفا فوں کو صندوق میں ڈال کر تا لا لگا تی تھی اور مر تے دم تک غربت، نا داری اور بے چار گی کا رونا روتی تھی دولت اس کے گھر میں مو جود تھی مگر وہ اس دولت سے کا م لینا نہیں جا نتی تھی امریکی کمپنی معدنیات کے 6ہزار مربع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تی ہے چینی کمپنی معدنی ذخا ئر کے 5ہزار مر بع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تی ہے پا کستانی سر ما یہ کار 300مربع کلو میٹر رقبے پر نظر رکھتا ہے جبکہ مقا می درخواست گذار بڑی مشکل سے کوارڈنیٹ نکال کر 40مر بع کلو میٹر رقبے کے لئے فارم جمع کر تا ہے اس میں وسائل اور دولت کا مسئلہ نہیں درخواست گذار کے دما غ میں خلل ہے وہ 50مر بع کلو میٹر سے آگے سوچنے کی صلا حیت نہیں رکھتا وہ اس بات سے واقف نہیں کہ لیز لینے کے بعد کسی بڑی کمپنی کے ساتھ شراکت اختیار کر کے جوائنٹ وینچر کے ذریعے وہ اربوں کی سرمایہ کاری میں حصہ دار بن سکتا ہے معدنیات کی لیز کے لئے آن لا ئن درخواستوں کی سہو لت صو بائی حکومت کا بڑا کار نا مہ ہے مستقبل میں اس کے دور رس نتائج برآمد ہو نگے۔