قیام پاکستان کے بعد چترال کا کوئی نیم شہری علاقہ مسائل و پسماندگی کا تا ہنوز شکار رہا ہے۔ تو وہ لوئر چترال کی تحصیل دروش کا نواحی گاوں کیسو ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) قیام پاکستان کے بعد چترال کا کوئی نیم شہری علاقہ مسائل و پسماندگی کا تا ہنوز شکار رہا ہے۔ تو وہ لوئر چترال کی تحصیل دروش کا نواحی گاوں کیسو ہے۔ تقریبا چار ہزار کی آبادی والا یہ گاوں جہاں ترقیاتی منصوبوں سے محروم ہے۔ وہاں بنیادی انسانی ضرورت پانی کی نایابی اس کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اور اس کو علاقے کے مسائل میں ترجیح حاصل ہے۔ کیونکہ اس علاقے کو آب نوشی اور آبپاشی دونوں مسائل کا سامنا ہے۔ کیسو وسیع و عریض آراضی پر مشتمل بے آب وگیاہ گاوں ہے۔ اس کے بیس فیصد حصے پر آبپاشی کیلئے انتہائی قلیل پانی دستیاب ہے۔ جبکہ اسی فیصد رقبہ پانی کی عدم دستیابی کے سبب کسی بھی قسم کے فصل اگانے سے قاصر ہے۔ جہاں درخت اور فصلیں موجود ہیں ان کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہاں کے درختوں فصلوں کے پتوں اور لوگوں کے چہروں پر تشنگی کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔ گاوں کے لوگوں کو اڑتالیس گھنٹے بعد جو پانی فراہم ہوتی ہے۔ وہ بھی پینے کے قابل نہیں۔ لیکن زندہ رہنے کیلئے وہ یہی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ کیسو گولدہ اور کیسو بالا میں جب پانی کی مقدار قدرے بہتر تھی۔ تو کیاری نما کھیت کھلیانوں میں فصلیں لہلہاتی تھیں۔ لیکن اب یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ کیونکہ فصلوں کو سیراب کرنے والا وہ پانی ختم ہو چکا ہے اور فصلوں کی کاشت ایک خواب کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ کیسو گاوں کے ان گھمبیر مسائل کو اجا گر کرنے اور ارباب اختیار تک پہنچانے کیلئے چترال پریس کلب نے حسب روایت کیسو گاوں میں پریس فورم کا انعقاد کیا۔ اور صدر پریس کلب ظہیرالدین کی قیادت میں صحافیوں کی ٹیم نے علاقے کا دورہ کیا۔ اور ان کے مسائل سنے۔ اس موقع پر علاقے کے عمائدین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ سابق تحصیل ناظم اور رہنما پاکستان تحریک انصاف سرتاج احمد خان نے خصوصی طور پر پریس فورم میں شرکت کی۔ علاقے کے عمائدین میں ریٹائرڈ استاد شمشیر دستگیر، سابق ناظم کیسو شرین خان، سابق ممبر تحصیل کونسل عبدالسلام، سماجی کارکنان صمصام دستگیر، ذوالفقار احمد، قاضی ولی الرحمن، چیرمین زکواۃ کمیٹی احمدالدین، میر عجب خان، رہنما پی ٹی آئی نثار دستگیر، ریٹائرڈ صوبیدار فضل الہی جمشید احمد اور رحمت ولی شاہ نے علاقہ کیسو کے مجموعی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اور کہا۔ کہ پینے کے پانی کے سلسلے میں کیسو کے لوگ اتنے مجبور ہو گئے ہیں۔ کہ دشت کربلا میں اہل بیت کی تشنگی میں مماثلت کی وجہ سے اس کا نام کربلا رکھنے کا سوچا جارہا ہے۔ تاکہ حکومت کویہاں کے لوگوں کی مجبوری کا احساس ہو سکے۔ یہ چترال کاواحد گاوں ہے۔ جہاں پبلک ہیلتھ کا کوئی بھی منصوبہ آج تک تعمیر نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ علاقے کے نمائندوں نے پانی کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ زیر تعمیر لاوی ہائڈل پاور سٹیشن کیلئے ٹنل کی تعمیر کی وجہ سے اس گاوں کے چشموں کے زیر زمین روٹس متا ثر ہوئے ہیں۔ اور چشموں کے پانی کی مقدار میں ناقابل یقین حد تک کمی ہوئی ہے۔جس کے باعث لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ فصلوں کی کاشت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ اور درخت سوکھ چکے ہیں۔ عمائدین نے کہا۔ کہ ستر سالوں میں ان کی تکالیف کا کسی حکومتی ادارے اور نمائندوں نے احساس نہیں کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں معاون خصوصی وزیر اعلی وزیر زادہ اور سرتاج احمدخان نے لوگوں کی مشکلات کا احساس کیا۔ اور مسلسل کوشش کرکے وزیر اعلی خیبر پختونخوا سے اے ڈی پی سکیم کے تحت واٹر سپلائی سکیم کیلئے 12 کروڑ چالیس لاکھ روپے منظور کرائے۔ جس کیلئے وہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان معاون خصوصی وزیر اعلی وزیرزادہ اور رہنما پاکستان تحریک انصاف سرتاج احمد خان کے مشکور ہیں۔ عمائدین نے مطالبہ کیا۔ کہ علاقے کی مجبوری کے پیش نظر بلا تاخیر منصوبے کیلئے ٹینڈر طلب کئے جائیں۔ اور جتنی بھی تیزی ممکن ہو کام کا آغاز کیا جائے۔ تاکہ کیسو کے لوگوں کو پانی کی مشکلات سے نجات مل سکے۔ انہوں نے کہا۔ کہ یہ ملک کی تاریخ کا کیسو گاوں کیلئے اہم ترین منصوبہ ہے۔ جس سے کیسو کے لوگوں کی زندگی میں بہت تبدیلی آئے گی۔ علاقے کے معروف شخصیت شمشیر دستگیر نے یہ بھی مطالبہ کیا۔ کہ پچھلے سال واٹر واٹرسپلائی سکیم کیلئے چار کروڑ روپے منظور ہوئے تھے۔ لیکن وہ سکیم کیلئے ناکافی ہونے کی بنا پر منصوبے پر خرچ نہیں ہو ئے۔ اس لئیچار کروڑ کے اس فنڈ کو سولر ایریگیشن سسٹم کی تنصیب پر خرچ کرکے علاقیپر رحم کیا جائے۔ جس سے کیسو پائیں کے بڑے ایریے کو سیراب کرنے میں مدد ملے گی۔ موجودہ حالات میں پانی کی نایابی کے باعث فصلیں کاشت نہیں کی جارہیں۔ اس لئے کیسو میں چارہ کی کمی کے باعث لوگوں نے مال مویشی پالنا بند کر دیا ہے۔ عمائدین نے پانی کے علاوہ بھی کئی مسائل کی نشاندہی کی۔ جن میں کیسو گولدہ میں پرائمری سکول اور گرلز ہائی سکول نہ ہونے سے بچیوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا۔ اور کہا۔ کہ چار ہزار کی آبادی کی بچیوں کیلئے اب تک ہائی سکول موجود نہیں۔ اس لئے مڈل پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم جاری رکھنا ان کیلئے ناممکن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انہیں دس کلو میٹر سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کے اخراجات برداشت کرنا غریب والدین کے بس سے باہر ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا۔ کہ گورنمنٹ گرلز مڈل سکول کیسو کو اپگریڈ کرکے ہائی کا درجہ دے کر بچیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ تاکہ بچیاں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں۔ انہوں نے گاوں میں لنک روڈز کی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔ اور کہا۔ کہ گاوں میں گو کہ اپنی مدد آپ اور کچھ اداروں کے تعاون سے لنک روڈ تعمیر کئیگئے ہیں۔ وہ نامکمل ہیں۔ اس لئے گاوں کی بہت بڑی آبادی روڈ کی سہولت سے محروم ہے۔ ایمرجنسی حالات میں مریض کو روڈ تک پہنچانے کیلئے ریڑھی میں بیٹھایا جاتا ہے۔ یا پیٹھ پر اٹھا کر سڑک پر پہنچایا جاتا ہے۔ خصوصا خواتین مریضوں کیلئے یہ مرحلہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس لئے گاوں کے اندر لنک روڈز کی تعمیر اور گلیوں کی پختگی کیلئے حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے۔ انہوں نے مقامی بی ایچ یو میں ڈاکٹر اور دیگر اسٹاف کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ تاہم بی ایچ یو میں سہولیات مزید بہتر بنانے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پرسابق تحصیل ناظم و رہنما پاکستان تحریک انصاف سرتاج احمد خان نے اپنے خطاب میں کہا۔ کہ کیسو میں پانی کی قلت کا مسئلہ دیرینہ ہے۔ جو کہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہاں آبنوشی اور آبپاشی دونوں مسائل لوگوں کو درپیش ہیں۔ لیکن یہ علاقے کے لوگوں کی خوش قسمتی ہے۔ کہ اب اس مسئلے کے حل کیلئیوزیر اعلی خیبر پختونخوا کی طرف سے 12 کروڑ چالیس لاکھ روپے اے ڈی پی میں منظور ہو چکے ہیں۔ جس کیلئے کیسو کے تمام عمائدین کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اس فنڈ کی فراہمی کے سلسلے میں جس نے بھی کوشش کی۔ ان کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ تاہم اب یہ گاوں والوں کا کام ہے۔ کہ منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادارے کے کام پر نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ بھر پور تعاون کریں۔ اس منصوبے کی کامیابی سے کیسو میں پانی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا۔ کہ وہ چاہتے ہیں۔ کیسو میں لنک روڈز کے مسائل حل ہو جائیں۔ موجودہ دور میں روڈز بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ یہ کیسو کے لوگوں کیلئے خوشی کا مقام ہے۔ کہ کیسو سے ملحق گاوں گنگ میں اکنامک زون تعمیر ہو رہا ہے۔ جس میں مختلف قسم کے کارخانے لگیں گے۔ جن کیلئے ہنر مند نوجوانوں کی ضرورت ہو گی۔ اس لئے یہ ضروری ہے۔ کہ کیسو کے نوجوان مختلف شعبوں میں ٹریننگ حاصل کریں۔ تاکہ گھروں کے قریب ہی روزگار حاصل کر سکیں۔ اور بے روزگاری سے نجات مل سکے۔ انہوں نے کہا۔ کہ چترال دن بدن ترقی کر رہا ہے۔ لیکن افسو س یہ ہے کہ چترالی ترقی نہیں کر رہے۔ اس لئے وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلنے اور معاشی استحکام کیلئے نوجوانوں کو اپنی سوچ اور ذہن کو تبدیل کرکے کاروباری بنانا پڑے گا۔ بصورت دیگر چترال کے جوانوں کو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔