دادبیداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکہ کی نئی حکومت

Print Friendly, PDF & Email

دادبیداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکہ کی نئی حکومت
امریکہ کی نئی حکومت
20جنوری2021کو جوبائیڈن کی صدارت کے ساتھ امریکہ میں نئی حکومت آئیگی امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کملا ہیرس نائب صدربن جائیگی گذشتہ کئی انتخابات میں کسی صدر کو شکست نہیں ہوئی تھی رونالڈریگن سے لیکر باراک اوبامہ تک سارے صدور دوسری مدت کیلئے بھی منتخب ہوئے تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدت کیلئے منتخب نہ ہوسکے امریکی رائے دہندگان کو ان کی غیر متوازن شخصیت نے متاثر نہیں کیا عالمی سطح پر بھی ان کے مسخرے پن اور غیر محتاط گفتگو کی وجہ سے ان کا تاثرمثبت سے زیادہ منفی تھا اس کے باوجودان کے دور صدارت میں امریکی مفادات کو خاص نقصان نہیں پہنچااس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کی بیوروکریسی بہت مضبوط ہے۔پارلیمنٹ پالیسی دیتی ہے بیوروکریسی اس پر عمل کرتی ہے صدر جتنی غیر محتاط گفتگوکرے اپنی ذات اور پارٹی کو نقصان پہنچاتا ہے امریکہ کو نقصان نہیں پہنچاتا۔صدر ٹرمپ کی جگہ جو بائیڈن کے انتخاب کے بعد اگرچہ صدر کی نئی ٹیم حکومت میں آئیگی ملک کے400اہم عہدوں پر نیاصدر اپنی ٹیم کے ارکان کا انتخاب کرینگے۔صدر کی کابینہ 10یا12وزراء پر مشتمل ہوگی وہ صدر کی معاونت کرینگے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ بحیثیت ملک اپنی ترجیحات کو تبدیل کرے گا یا امریکی بحیثیت قوم اپنے دوست اور دشمن کے معیار میں تبدیلی کے روادار ہونگے ایسا نہیں ہوگا۔جب سے امریکہ میں دوپارٹیوں والا جمہوری نظام آیا ہے تب سے اب تک ایسا نہیں ہوا یہ بات طے ہے کہ ری پبلکن پارٹی کو قدامت پسند خیال کیا جاتا ہے لیکن قدامت پسندی میں امریکی مفادات کو داؤ پر لگانے کی نوبت نہیں آتی۔اس طرح ڈیموکرٹیک پارٹی کو لبرل تصور کیا جاتا ہے لیکن روشن خیالی کے زعم میں اس پارٹی نے امریکہ کے بنیادی نظریات، تصورات اور اقدار کو خیرباد نہیں کہا۔پاکستانی عوام جس طرح کی حکومتوں کے عادی ہیں ایسے تجربات اور اپنی حکومتوں کو دیکھ کرہمارے ہاں نئے امریکی صدر سے بے جا توقعات وابستہ کی جاتی ہیں جو غلط فہمیوں پر مبنی ہوتے ہیں امریکی نظام میں صدر کے انتخاب سے لیکر اس کی حلف برداری تک ڈھائی مہینوں کا وقفہ ہوتا ہے ان ڈھائی مہینوں میں نیا صدرجلسوں اور ریلیوں سے خطاب نہیں کرتا بلکہ وہ سرکاری افیسروں سے آنے والے4سالوں کی حکمت عملی پر جامع منصوبے لیتا ہے جس کو بریفنگ کہتے ہیں سی آئی اے سے لیکر ہوم سیکیورٹی تک75اہم محکموں کے بااختیار افیسروں کی ٹیم نئے صدر کو بریفنگ دیتی ہے آنے والے دنوں کے جامع منصوبوں سے آگاہ کرتی ہے اور داخلی امور سے لیکر خارجہ محاذتک ہر موضوع پر امریکہ کے مفادات پر سیر حاصل گفتگو کرتی ہے اس کو آپ آگاہی مہم سمجھ لیں یا ہوم ورک کہہ لیں کوئی بھی نیا صدر یہ نہیں کہتا کہ مجھے سب معلوم ہے۔ہر آنے والاصدر اس مرحلے سے گذرتا ہے چنانچہ صدر جوبائیڈن کو20جنوری تک نئی ذمہ داریوں کے لئے تیاری کے مرحلے سے گذارا جائے گا پاکستانی عوام کو تین بنیادی باتیں جاننے کی ضرورت ہے پہلی بات یہ ہے کہ امریکی نظام میں پارٹی کا منشور صدر کی ذات سے زیادہ اہم ہے،پارلیمنٹ کی طاقت اور سول بیوروکریسی کے وسیع اختیارات صدر کی ذاتی پسند اور ناپسند پر حاوی ہوتے ہیں امریکی حکومت کا نظم ونسق وائٹ ہاؤس سے کنٹرول نہیں ہوتا بلکہ امریکی نظام میں سول بیوروکریسی یا افسر شاہی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔امریکی پارلیمنٹ اس قدر طاقتور ہے کہ وہ چاہے تو بجٹ بھی روک دے۔ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بجٹ کا معاملہ کئی ہفتوں تک لٹکتا رہا اور وائٹ ہاؤس کو پارلیمنٹ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ہماری دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ نئے امریکی صدر کی پالیسی مسلمانوں کے لئے اور پاکستان کے لئے جانے والے صدر کی نسبت بہتر ہوگی حالانکہ پالیسی میں تبدیلی صدر کے اختیار میں نہیں چند اُمور پہلے سے طے کئے گئے ہیں اسرائیل کا تحفظ امریکہ کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے صدر ٹرمپ ہو یا بائیڈن اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دیگا اور اس ضمن میں مسلمانوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھے گا ہماری ایک اور غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ نیا صدر بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دیگا مگر تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا بھارت ڈیڑھ ارب کی آبادی کا ملک ہے امریکی مصنوعات کی بڑی منڈی ہے اور امریکی ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے۔امریکہ میں اقتدار ڈیموکرٹیک پارٹی کے پاس ہو یا ری پبلکن پارٹی کی حکومت ہو دونوں صورتوں میں بھارت ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے جوبائیڈن سے پہلے جمی کارٹر،بل کلنٹن اور باراک اوبامہ ڈیموکرٹیک پارٹی کی حکومت میں صدر رہے کسی نے بھی بھارت پر پاکستان کو ترجیح نہیں دی موجودہ حالات میں چین کا راستہ روکنا امریکیوں کا مسئلہ نمبر ایک ہے اور اس مسئلے میں بھارت ان کا ہم نوا ہے۔جوبائیڈن کی صورت میں امریکہ کو متوازن شخصیت والا صدر مل گیا ہے اور ہم بھی امریکہ کی اس خوشی میں شریک ہیں۔