داد بیداد۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔در آمدی ٹما ٹر

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔در آمدی ٹما ٹر

در آمدی ٹما ٹر
خبر آئی کہ پا کستان نے ایران سے ٹما ٹر در آمد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بہت جلد ایرانی ٹما ٹر وں کی پہلی کھیپ پا کستان پہنچنے گی اس سے پہلے خبر آئی تھی کہ روس سے درآمدی گندم کا پہلا جہاز کر اچی کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہونے والا ہے ہمارے بچے، نو اسے اور پو تے سکول کے اندر نصا بی کتا بوں میں جب معاشرتی علوم کا سبق پڑھتے ہیں تو ان کو یا د کرا یا جا تا ہے کہ پا کستان ایک زرعی ملک ہے یہاں کے انا ج پھل اور سبزیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں بچہ سکول سے جب آتا ہے تو اس کو بتا یا جا تا ہے کہ یہ گندم روس سے آیا ہے امریکہ اور آسٹریلیا سے آنے والے گندم کے مقا بلے میں اس کی لذت دو گنی ہے، یہ ٹما ٹر، یہ آلو اور یہ پیا ز ایران سے منگوا یاگیا ہے بھارتی ٹما ٹر، پیاز اور آلو سے یہ زیا دہ لذیز ہیں اور سستے بھی ہیں بچہ پو چھتا ہے ہماری کتاب میں آیا ہے کہ پا کستان ایک زر عی ملک ہے استاد نے اس کی تشریح کر کے بتا یا تھا کہ زر عی ملک میں انا ج اور پھل ہو تے ہیں سبزیاں اگائی جا تی ہیں گھر میں گندم روس کا ہے، آلو، ٹما ٹر اور پیاز ایران کے ہیں انگور اور ناشپا تی چین کے ہیں تر بوز، سردہ، بادام، کا جو اور پِستہ افغا نستان کے ہیں تو ہماری کتا بوں سے زرعی ملک والا سبق ہٹا یا کیوں نہیں جا تا دسویں جما عت کے بچے کا سوال اپنی جگہ درست ہے اگر زمینی حقا ئق کے مطا بق نصا بی کتا بوں پر نظر ثا نی کی گئی تو پھر یہ سوال بھی اُٹھے گا کہ ہماری کتا بوں میں لکھا ہے پا کستان اسلا م کے نا م پر بنا تھا اگر ہماری عدا لتوں میں شر عی قوانین نہیں آسکتے تو براہ کرم ہمت کریں اور نصا بی کتا بوں سے اسلام کے نام پر بنا ہوا ملک کا جملہ ہٹا دیں جو نظر نہیں آتا اس بات کوطوطے کی طرح رٹہ لگا نے کا کوئی فائدہ نہیں اور خصو صاً بچوں کا ذہن سکول اور گھر میں الگ الگ بیا نیہ (Narrative) دیکھ کر عجیب انتشار سے دو چار ہو جا تا ہے یہ اُس زما نے کی بات ہے جب محکمہ تعلیم کے حکام سکو لوں کا معائنہ کر تے تھے کلا سوں میں جا تے تھے طلباء سے سوالات پو چھتے تھے اور اسا تذہ کی کار کر دگی کو پرکھتے تھے 2010کے بعد سکو لوں کے معا ئنے کی روایت ختم ہو گئی گذشتہ 10سالوں میں کسی افیسر نے کسی سکول کا معا ئنہ نہیں کیا کسی کلاس میں جھا نکتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اُس زما نے میں ایک افیسرنے کلا س میں جا کر پوچھا کس مضمون کا پیریڈ ہے ایک بچے نے کہا جعرافیہ کا پیریڈ ہے افیسر نے پو چھا آج کا سبق کیا ہے؟ بچے نے کہا ”ہمارا ما حول“ افسیر نے پو چھا ما حول کسے کہتے ہیں؟ بچے نے جواب دیا یہ آسمان یہ چاند تارے یہ سورج یہ سمندر یہ پہاڑ اور یہ زمین یہ سب ما حول ہے افیسر بیحد متا ثر ہوا پھر اُس نے پو چھا زمین چپٹی ہے یا گول ہے؟ بچے نے کہا زمین گھر میں چپٹی ہے سکول میں گول ہے افیسر نے پو چھا یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ بچے نے کہا استاذ کہتا ہے زمین گول ہے باپ کہتا ہے زمین چپٹی ہے نتیجہ ایسا ہے کہ ہم گھر کے ما حول اور زمینی حقا ئق کو دیکھ کر سکول کی کتا بیں تبدیلی کر نا چا ہیں تو بات دور تک جائیگی اور یہ سلسلہ کہیں بھی رکنے کا نام نہیں لیگا قابل غور بات یہ ہے کہ زرعی ملک کے پاس ڈا لر نہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے، تیل کی قلت ہے تو قابل فہم بات ہے انفارمیشن ٹیکنا لو جی میں پڑوسی مما لک سے پیچھے ہے تو سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی مگر جب ہم کہتے ہیں کہ گندم، آلو، پیاز اور ٹما ٹر بھی پڑو سی مما لک سے منگوا نا پڑتا ہے تو اس بات کو سمجھنے میں مسئلہ آجا تا ہے اندر کی کہا نی لا نے والے سیا نے کہتے ہیں کہ ملک کا انتظام طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں ہے ان حلقوں کو پا رلیما نی زبان میں لا بی (Lobby) کہا جا تا ہے یہ حلقے اپنے اپنے مفا دات کا تحفظ کر تے ہیں ہمارے ہاں سر مایہ داروں اور صنعتکاروں کی طاقتور لا بی مو جو دہے، جاگیر داروں کی مو ثر لا بی اپنے مفا دات کا تحفظ کر تی ہے چھوٹے زمینداروں اور کا شتکاروں کی کوئی لا بی نہیں ملکی معا ملات اور حکومتی فیصلوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں لو گ پو چھتے ہیں کہ جا گیردارو ں کی لا بی چھوٹے زمینداروں اور کا شتکاروں کے مفا دات کا تحفظ کیوں نہیں کرتی؟ اس سوال کا جواب بہت سادہ اور آسان ہے جا گیر دار نے کبھی گندم، پیا ز، ٹماٹر اور آلو کی فصل اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی وہ تو یورپ، امریکہ یا ملک کے بڑے شہر کی پُر تعیش کوٹھی میں بیٹھ کر زمین کی آمد ن سے روزی کما تا ہے اُس کا پیداوار سے کوئی لینا دینا نہیں سپورٹ پرایس، اچھے بیچ، ٹیو ب ویل یا نہر کے پا نی، سستے کھا د، ٹریکٹر، تھریشر اور دیگر زرعی آلا ت سے اس کا کوئی سرو کار نہیں یہ سردردی چھوٹے زمیندار اور کا شتکار کو چین سے سونا نہیں دیتی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ زمیندار اور کا شتکار کا نما ئیندہ کبھی کسی طاقتور لا بی کی حما یت حا صل نہیں کر سکتا سچ پوچھئے تو اس بے چارے کی کوئی نمائندگی کسی فورم پر نظر نہیں آتی اب لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہیں آٹے، چینی، دال، ٹما ٹر اور آلو کے معیا ر پر بھی لے دے ہو تی ہے مگر دکھ کی بات یہ نہیں دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پا کستان زرعی ملک ہے 1997میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے خود کفیل ہو گیا تھا گذشتہ 22سالوں سے خود کفیل چلا آرہا تھا مگر اب خود کفالت سے طفیلی پن کی طرف آگیا ہے ٹما ٹر، پیاز،آلو اور گندم بھی در آمد کر تا ہے عوام کو در آمدی ٹما ٹر کھلاتا ہے بس ہمیں اس بات کا بڑا دکھ ہے کسی اور بات کا اتنا دکھ نہیں۔