داد بیداد ۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔۔۔علاج معالجے کا نظم و نسق

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔۔۔علاج معالجے کا نظم و نسق
علاج معالجے کا نظم و نسق
خیبر پختونخوا کی حکو مت نے پرائمیری ہیلتھ کیئر پر خصو صی تو جہ دیتے ہوئے دیہی علا قوں میں قائم چھوٹے ہسپتا لوں کو وسائل دے کر 24گھنٹے فعال رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اس انقلا بی فیصلے کی روشنی میں پشاور کے مضا فات میں قائم 10ہسپتالوں کو پہلے مر حلے میں وسائل اور سہو لیات دینے کی منظوری دی ہے 24گھنٹے فعال ہو نے والے ہسپتا لوں میں 8بیسک ہیلتھ یونٹ اور دو رورل ہیلتھ سنٹر شا مل ہیں یہ اقدام حکومت کی اس سکیم کا حصہ ہے جس کے تحت مریضوں کو ان کے گھروں کے نزدیک علاج معا لجہ کی سہو لیات دے کر شہروں کے بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ کم کرنا مطلوب اور مقصود ہے حفظان صحت اور علا ج معا لجہ کا نظام پوری دنیا میں اس طریقے پر کا م کرتا ہے پڑوسی ملک چین نے دیہات میں تعلیم، صحت اور شہری سہو لیات فراہم کر کے دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکا نی کے رجحا ن پر بھی قا بو پا لیا ہے کا لجوں، یو نیورسٹیوں اور بڑے ہسپتالوں پر دیہات سے آنے والوں کا رش بھی کم کر دیا ہے جا پا ن اور کوریا میں بھی یہ تجربہ کامیاب ہوا ہے پا کستان نے 1974میں دیہی علا قوں کے اندر سما جی شعبے کی تر قی کے لئے بنیا دی ڈھا نچہ فراہم کیا تھا 1977کے بعد یہ سلسلہ رک گیا اگر چہ ہسپتا لوں اور سکو لوں کی عما رتیں بن گئیں لیکن ان میں ابتدائی منصو بے کے مطا بق سہو لیات فراہم نہ ہو سکیں حکومت کے مو جو دہ اعلا ن سے وہ عما رتیں اباد ہو جائینگی جو پچھلے 30یا 35سالوں سے بھوت بنگلہ کا منظر پیش کر رہی ہیں محکمہ صحت نے گذشتہ تین دہا ئیوں میں اس پر کیوں تو جہ نہیں دی؟ اس کی بے شمار وجو ہات تھیں ایک وجہ علا ج معا لجے کے نظم و نسق میں سیا سی مدا خلت تھی دوسری نما یاں وجہ یہ تھی کہ صحت کا محکمہ بہت بڑے حجم کا محکمہ ہے پرائمیری ہیلتھ کئیراس کا ایک شعبہ ہے ٹر شری ہیلتھ کئیراس کا دوسرا شعبہ ہے ڈاکٹر وں، نر سوں اور پیرا میڈکس کی تعلیم و تر بیت اس کا تیسرا شعبہ ہے تینوں شعبوں کو ایک وزیر اور ایک سکرٹری کی ما تحتی میں دینے کی وجہ سے ہفتوں کا کام سالوں میں بھی انجام نہیں پا تا یہ 2009کا واقعہ ہے ایک پہاڑی ضلع کے دور دراز رورل ہیلتھ سنٹر کی لیڈی ہیلتھ وزیٹر (LHV) پرائیویٹ کلینک چلا رہی تھی ان کے کلینک میں ڈلیوری کے دوران ماں اور بچہ کی مو ت واقع ہوئی ایل ایچ وی کے خلاف ایف آئی آر درج ہوا، دُہرے قتل کے مقدمے میں ان کی گرفتاری عمل میں آئی دوسال بعد متاثرہ پارٹی سے صلح صفائی ہو گئی اور ایل ایچ وی کو رہا کیا گیا اب ان کی ملا زمت اور تنخوا کا مسئلہ تھا مگر ان کو یہ جا ن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ واقعے کی رپورٹ اوپر نہیں بھیجی گئی تھی اور مو صو فہ کواس اثنا ء میں دو انکریمنٹ مل چکے تھے اگلے گریڈ میں ان کی محکما نہ ترقی کا حکم بھی آیا ہوا تھا یہ عجو بہ روزگار واقعہ اس لئے ممکن ہوا کہ محکمہ بہت بڑا ہے 10ڈاکٹر اور 200ماتحت عملہ ادھر ادھر ہو جائیں تو پتہ بھی نہیں لگتا پورا ہسپتال جلا دیا جائے تو رپورٹ دینے کی ضرورت نہیں پڑتی اس کو نا قا بل انتظام کہتے ہیں اس کا حل یہ ہے کہ محکمۂ صحت کو تین شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے پرائمیری ہیلتھ کئیر کا الگ وزیر اور الگ سکرٹری ہو ڈسپنسری سے لیکر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تک بنیا دی صحت کے تما م ادارے اُس کے ما تحت ہو ں، ٹر شری کئیر کا محکمہ الگ ہو ڈویژنل ہیڈ کو ارٹروں کے علا وہ صو بائی دار لحکومت کے بڑے ہسپتال بھی اس کے ما تحت ہو ں ظا ہر ہے اس کا بھی الگ وزیر اور سکرٹری ہوگا ڈاکٹروں، نر سوں اور پیرا میڈکس کی تعلیم و تر بیت کا محکمہ الگ ہو یہ بھی الگ وزیر اور سکرٹری کے ما تحت ہو ہر شعبے پر حکومت کی پوری نظر ہوگی اور ہر محکمے کے اندر جزا و سزا کا عمل آسا نی سے ہوتا ہوا نظرا ٓئے گا الگ محکمہ بننے کے بعد بھی پرائمیری ہیلتھ کئیر بہت بڑے حجم کا دفتر ہو گا اس میں ای پی آئی،پو لیو کے انسداد کا پرو گرام، ہیلتھ ہائیجین اور سینی ٹیشن سمیت کئی پرا جیکٹ آئینگے زچہ بچہ مرا کز آئینگے فارمیسی اور ڈرگ ریگو لیشن کے دفا تر آئینگے اس کا حجم بڑا ہو گا تا ہم اس قدر پتہ لگے گا کہ کس مر کز صحت میں ڈاکٹر کی آسا می خا لی ہے یا کس مر کز صحت کا ڈاکٹر گذشتہ 10سالوں سے قطر یا سعو دی عرب میں نو کر ی کر کے یہاں تنخوا ہ اور مرا عات وصول کر تا ہے کون سے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں 8مہینوں سے ایکسرے فلم دستیاب نہیں اور کون سے ہسپتال کی لیبارٹری دو سالوں سے بند پڑی ہے مو جودہ محکمہ صحت میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے معمولی واقعات کا کوئی پتہ نہیں چلتا جون 2013میں ایک پہاڑی مقام پر گاڑی کو حا دثہ پیش آیا 9زخمیوں کو ایک کلو میٹر کے فا صلے پر واقع بی ایچ یو لا یا گیا تو معلوم ہوا کہ بی ایچ یو میں چو کیدار اور ما لی کے سوا کوئی نہیں دن کے 10بجے کا وقت تھا اور اس روز کوئی چھٹی بھی نہیں تھی 15کلو میٹر کے فا صلے پر آر ایچ سی مو جو د تھا زخمیوں کو وہاں پہنچا یا گیا تو معلوم ہوا کہ ڈسپنسر مو جو د ہے جو ہسپتال کا انچار ج ہے ابتدائی طبی امداد کی کوئی سہو لت دستیاب نہیں مزید 16کلو میڑ کچے راستے پر سفر کر کے ڈی ایچ کیو ہسپتا ل پہنچا یا گیا تو 9میں سے 7زخمیوں نے دم توڑ دیا دو زخمیوں کو سی ٹی سکین کے لئے 360کلو میٹردور پشاور بھیجدیا گیا شعیب جدون ڈپٹی کمشنر تھے انہوں نے تفصیلی رپورٹ لکھی مگر رپورٹ کو کسی نے پڑھا نہیں محکمہ بہت بڑا ہے ایسے وا قعات روز ہو تے ہیں اس کا حل یہی ہے کہ محکمہ صحت کا مو جو دہ سٹرکچر توڑ کر اس کو تین محکموں میں تقسیم کیا جائے۔