دھڑکنوں کی زبان۔۔سیلاب زادے۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

بے شک گھر کراچی میں ہے لیکن گھر کدھر ہے ایک جھونپڑی نما ہے وہ بھی کرائے کا ۔۔بندہ راج مزدور ہے دن کی دیہاڑی لگی تو ٹھیک ہے ورنہ اس شام گھر میں فاقہ ہے۔۔گھر چترال میں ہے بر لب ندھی ایک جھونپڑی نما ہے۔۔بندہ صبح نکلتا ہے کہیں مزدوری ملی تو ٹھیک ہے ورنہ ایک دو چوکورمزرعی زمین ہے اس کوپانی دینے گیا ہے۔۔سردیوں میں ٹھنڈ بہت پڑتا ہے جلانے کو لکڑی نہیں ہوتی کمبل پہن کے گزارا کرنا پڑتا ہے لیکن کوئی گرمی آنے کی آرزو نہیں کرتا اس لئے کہ گرمیوں سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے۔۔ادھر بادل آئے ادھر نیند حرام ہو گئی۔بچے جاگ جاگ کر رات گزارتے ہیں۔کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ پورا خاندان سیلاب کی زد میں آکر بال بال بچے ہیں۔وہ چیخ و پکار سب کو یاد ہیں۔۔ سال ۵۱۰۲ء تھا۔۔ساون ٹوٹ کے برسا سارا ملک سیلاب کی زد میں آگیا۔۔سوات دیردیر کوہستان،چترال،آگے نوشہرہ،پنجاب کا اکثر علاقہ سندھ سیلابی ریلے میں ڈھوب گئے۔۔دریا بپھر گئے۔۔دریائے سندھ کا پاٹ ۵۲ میل چوڑا ہو گیا۔۔تما م ندھیاں شغلے اگلنے لگیں۔۔کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔زرعی زمینیں کٹ گئیں۔۔جھونپڑیاں بہہ گئیں۔قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ لوگ بے گھر بے در ہوگئے۔۔دھائیاں دی گئیں۔۔ادھر ادھر سے فلاح انسانیت کے چمپیئن آگے بڑھے۔۔حکومت نے بھی اشک شوئی کی۔وقت کا مرھم لگے زخم پہ لگا تو زندگی نارمل ہوگئی۔۔لیکن مستقبل اسی طرح بے یقین تھا کوئی عملی اقدامات کا نہیں سوچا گیا۔کوئی اختیاطی تدابیر نہیں اپنائی گئیں۔لب ندی وہی جھونپڑیاں پھر بن گئیں۔ان کھیت کھلیانوں کو سیلابی چٹانوں اور مٹی کے تودوں سے صاف کیا گیا۔۔بہے پل پھر بنائے گئے۔ یہ نہ سوچا گیا کہ گرمیاں پھر آئیں گی ساون پھر برسے گا۔سوچ کے بھی کیا کیا جاتا۔۔موسیمات کے ماہرہیں باخبر کرتے ہیں جغرافیائی تبدیلی کا سب کہتے ہیں خطرے سے سب آگاہ کرتے ہیں لیکن بندہ کیا کرے۔۔کہاں جائے لب ندی جھونپڑی اٹھاکر کہاں جائے۔مصروف شہر میں کرائے کے دوکمرے چھوڑے تو پھر کہاں سے ملیں ان کو کیا پتہ کہ شہر میں نکاسی کا مناسب انتظام کوئی نہیں۔۔کراچی کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔۔لیکن ابھی کہتے ہیں۔۔ہاں محترمہ شہلا رضا کہتی ہیں کہ کراچی سطح سمندر سے نیچے ہیں۔یہ شہر صرف سترہ میلی میٹر بارش برداشت کر سکتا ہے ورنہ پانی سمندر پہنچ کر واپس آئے گا اور شہر ڈھوب جائے گا۔حکومت نکاسی کا انتظام ٹھیک کیوں نہیں کرتی۔۔یہ سوال اس سے پوچھنے کی نہیں ہے۔۔نقار خانے میں ایسا سوال پوچھا نہیں کرتے۔۔۵۱۰۲ء میں چترا ل تباہ ہوا۔۔”سیلاب زادوں“ کی اشک شوئی کی گئی۔۔حکومت کے علاوہ کئی فلاحی تنظیمیں سر گر م ہوئیں۔کئی تنظیموں کے رضا کاروں نے خدمت کی مثال قائم کی۔ جگہ جگہ لفٹ جوڑے گئے متبادل راستے بنائے گئے۔۔لیکن قسمت ہی ایسی ہے پھر ساؤن آئے پھر سیلاب آئے۔۔پھر کراچی ڈھوب گیا پھر چترال لرز اٹھا۔۔ کراچی اب کی بار ایسا ڈھوب گیا کہ تاریخ یاد کرے گی۔۔اب یہ سوالیہ نشان کس کے سر جائے۔کس کے ماتھے پہ ٹکے۔۔اس زمانے میں صوبے میں ایم کیوایم کی حکومت تھی۔۔اس نے وفاق کوملزم ٹھرائی۔۔وفاق نے اسے۔۔۔اب کی بار پی پی کی حکومت ہے۔۔وہ وفاق کو ملزم ٹھراتی ہے وفاق کہتی ہے کہ وہ پیسے اس اندھیر نگری میں کہاں کھو جاتے ہیں۔۔المیہ یہ ہے کہ سیلاب وزیر اعلی ہاؤس تک نہیں پہنچ سکا ہے ہاں یہاں پہ کوئی پانی کھڑا نہیں۔کسی کوٹھی اور محل تک کھڑا پانی نہیں پہنچ پایا۔وہ سیلاب زادوں میں نہیں کسی کا درد محسوس کرنے والا دل ان کے پاس نہیں۔۔سیلاب نے اس بار بلوچستان کو تباہ کر دیا۔سوات میں اور گلگت بلتستان میں بربادی آئی۔۔چترال میں یارخون ریشن اور لوئر چترال کے کئی دیہات میں تباہی مچا دی جس میں بمبوریت کلاش ویلی متاثر ہے۔۔ریشن کے مقام پر دو ضلعوں کوملانے والا پل ٹوٹ گیا۔یار خون وادی میں سولہ گھرانے تباہ ہوئے اور ایک خاندان کے دو جڑواں بچے مر گئے۔۔کلاش ویلی میں کئی گھر اور کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔۔ریش میں بار ہ گھرانے مکمل بہہ گئے کئی گھرانوں کوجزوی نقصان پہنچا۔۔مسجد شہید ہوئی۔۔اسی طرح ہمدردیاں اٹھیں۔حکومت کی طرف سے کوشش کی گئی۔۔صوبے کا وزیر اعلی خود تشریف لائے قومی اور صوبائی قائدیں موجود تھے سٹیل کے پل کا انتظام کیا گیا ممکن ہے ایک دو دن میں آمد و رفت بحال ہو۔ متاثریں میں چیک تقسیم کئے گئے۔پیکچ کا اعلان کیا گیا۔یہ فلاحی جمہوری حکومت ہے۔۔صوبے میں اور وفاق میں ایک پارٹی کی حکومت ہے۔اس کا مستقبل ہے۔۔اس کا وژن ہے۔۔ اس کے ٹارگٹز ہیں۔اور پھر وزیر اعلی زون تھری کا ہے۔۔آپ کو پسماندگی کا اندازہ ہے۔۔ آپ کو مجبوری کا احساس ہے۔۔آپ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں فرمایا کہ سوات میں ولی نام کی ایک شخصیت گزری ہے لوگ اس کو یاد کرتے ہیں اب ان شاء اللہ آئندہ وقتوں میں لو گ محمود خان کویاد کرئینگے۔۔یہ ایک عزم ہے ایک مضبوط ارادہ۔لیڈر شپ یہاں سے جنم لیتی ہے۔۔ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے وزیر اعلی کے نیک ارادوں میں برکت دے اور سوات کے ساتھ دوسرے پسماندہ ضلعوں کی تقدیر بھی بدل جائے۔ قدرتی آفات کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ انسان دوسرے لمحے ناقابل یقین حالات سے دوچار ہوتا ہے۔اس کو کچھ سوجھتا نہیں کہ کیا کرے زندگی بکھر جاتی ہے۔اس مجبوری کے وقت انسان قابل رحم ہوتا ہے اور مستحق بھی۔اس سمے اس کی پکار دھائی بن جاتی ہے۔خویش و اقارب ہوں یا دوست احباب،بہی خواہ ہوں یا حکومت وقت جو بھی ان مجبوروں کی اشک شوئی کرے یہ ان کا احسان مند ہوتے ہیں۔ملک خداداد میں آفتیں آتی رہتی ہیں اور آفت زادوں کی اشک شوئی بھی کی جاتی ہے۔شکر ہے ادھر ادھر سے ہمدرد نکل آتے ہیں۔حکومت وقت بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔۔یہ خوش آئند ہے۔۔۔