داد بیداد۔۔آفا ت کا مقا بلہ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

اخباری اطلا عات کے مطا بق ملا کنڈ ڈویژن کے 4اضلاع بارشوں اور سیلا بوں سے متا ثر ہوئے ہیں اگر چہ جا نی نقصانات نہیں ہوئے تاہم گھروں، فصلوں، نہروں،سڑ کوں، پائپ لائنوں اوربجلی کے کھمبوں کی صورت میں عوامی منصو بوں اور نجی املا ک کو شدید نقصان پہنچا ہے ہزاروں گھرانے مال مو یشیوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں 2005ء کے زلزلے سے پہلے اس طرح کی آفا ت کا مقابلہ کرنے کے لئے ضلعی انتظا میہ، ڈسٹرکٹ کونسل اور تحصیل میونسپل ایڈ منسٹریشن کے پا س فنڈ بھی ہو تے تھے، خیمے،غلے اور دیگر امدا دی سامان کے گودام بھی ہوتے تھے 2005ء میں زلزلہ آ یا تو زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے اسلام اباد میں ایک دفتر قائم کیا گیا آفات کی صورت میں امداد اور بحا لی کا سارا کا م اسلام ابادمیں قائم دفتر کو دیدیا گیا بعد میں لو گوں کی شکا یت پر صو بائی دا رالحکومتوں میں اس کے صو بائی دفاتر بنا ئے گئے لیکن ان دفتروں سے سیلا ب یا کسی دوسری آفت کے مو قع پر متا ثرین کو کسی طرح کی امداد نہیں ملتی پہلی بات یہ ہے کہ سیلا ب سے متا ثر ہونے والے ہزار یا ڈیڑ ھ ہزار گھرانے اسلام اباد اور پشاور جا کر اپنی درخواست پر عمل درآمد نہیں کراسکتے اس طرح کے متا ثرین کی امداد کے لئے ریسکیو 1122کے طرز کا دفتر ہو نا چا ہئیے ڈپٹی کمشنر،ضلع نا ظم یا تحصیل نا ظم کا دفتر قدرتی آفات کی صورت میں ریسکیو 1122کی طرح لو گوں کی فوری مدد کرتا تھا بحا لی کا کام سال دو سال جاری رہتا تھا مقا می افیسر متا ثرہ مقا مات کا معا ئنہ کر سکتا تھا متا ثر ین بھی اپنی بات متعلقہ دفتر میں پہنچا سکتے تھے عوام اور دفتر کا قریبی تعلق ہو تا تھا 2005میں امداد اور بحا لی کے کا موں کو اسلام اباد میں واقع جس دفتر کے ذمے لگا یا گیا اس دفتر کا نام بھی لو گوں کو معلوم نہیں دفتر کا بھی پتہ نہیں ٹیلیفون نمبر کا بھی پتہ نہیں 2005سے پہلے کیبنٹ ڈویژن میں امداد اور بحا لی کا خصو صی شعبہ یا سیل ہو ا کر تا تھا وزارت داخلہ میں بھی قدرتی آفا ت کا خصو صی سیل ہو تا تھا 2010ء میں بین الصو بائی رابطے کی وزارت میں بھی قدرتی آفا ت کا شعبہ قائم ہوا ان شعبوں کا صو بائی حکومت سے برا بر تعلق اور رابطہ رہتاہے صو با ئی حکومت کا رابطہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفا تر سے رہتا ہے نیز ضلع کونسل اور تحصیل کونسل بھی اس زنجیر کی دواہم کڑ یوں میں شمار ہوتی ہیں ان کڑیوں کے ذریعے کا لام، بحرین، مدین، الپوری، چترال، ریشن اور وادی کا لاش میں قدرتی آفت سے متا ثرہونے والوں کے کوائف چند گھنٹوں میں اعلیٰ حکام کو مل جا تے ہیں امداد اور بحالی کا کام بھی چند گھنٹوں میں شروع ہو سکتا ہے ضلعی انتظا میہ کے پا س حا د ثا تی منصو بہ بندی ہوتی تھی جس کے لئے انگریزی میں ”کن ٹین جنسی پلا ن“ کہا جا تا تھا اسلام اباد میں واقع دفتر کا یہ حال ہے کہ بقول شاعر ؎
بات اپنی واں تک پہنچتی نہیں
عالی رتبہ ہے جناب بہت
اس سلسلے میں ایک تجویز یہ تھی کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے دفاتر اضلاع کی سطح پر قائم کئے جائیں اس پر یہ اعتراض اٹھا یا گیا کہ سیلا ب زدہ گان کے فنڈ کا 80فیصد اسلام اباد اور صو بائی دارالحکومتوں کے دفا تر پر خر چ ہو تا ہے خدا نا خواستہ اضلاع کی سطح پر دفاتر بنا ئے گئے توآفت زدگان کا فنڈ سو فیصد ان دفاتر پر خرچ ہو گا امداد اور بحا لی کے لئے پھوٹی کوڑی نہیں بچے گی اگر یہ اعتراض معقول ہے تو پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ اسلام اباد اور صو بائی دارالحکومتوں کے مر کزی دفاتر بند کر کے افیسر وں کو اُن کے اصل محکموں میں واپس بھیج دیا جائے اور قدرتی آفا ت کا مقا بلہ کرنے کے لئے 2005سے پہلے کا سسٹم دو بارہ بحال کیا جائے این ڈی ایم اے کا فنڈ ڈپٹی کمشنر، ضلع کونسل اور تحصیل کونسل کو ملے گا غیر سر کاری تنظیموں کو ملنے والا بیرونی فنڈ روکنے یا بند کرنے کا اختیار ایڈیشنل چیف سکرٹری کے پا س ہو گا غیر سر کاری تنظیمیں قدرتی آفات میں امداد اور بحا لی کے لئے این ڈی ایم اے سے این اوسی (NOC)لیتی ہیں جو سال یا ڈیڑھ سال کی تفتیش کے بعد جا ری کیا جا تا ہے یا مسترد کیا جا تا ہے یہ کام اگر ایڈیشنل چیف سکرٹری کو دیا گیا تو دو چارہفتوں میں این او سی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ ہو جائے گا سسٹم مین آسانی آجا ئے گی سچی بات یہ ہے کہ قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے ریسکیو 1122جیسا ادارہ ہو نا چاہئیے جو ایک ٹیلیفون کال پر متا ثرین کی امداد اور بحا لی کے لئے حا ضر ہو مو جو دہ حالات میں قدرتی آفا ت کے متا ثرین خود کو بے یا ر و مدد گار پا تے ہیں مسلے کا حل یہ ہے کہ اختیا رات نچلی سطح پر منتقل کئیے جائیں۔