داد بیداد۔۔بڑا فیصلہ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

بڑا فیصلہ اور دبنگ اعلا ن آگیا ہے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے،سعودی عرب نے اسرائیلی شہریوں کے لئے ویزہ پا لیسی بنا ئی اب دنیا بھر میں سعودی سفارت خانے اسرائیل کے شہریوں کو ویزے جاری کرینگے خبر آنے کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں سے ردعمل بھی سامنے آیا ہے فلسطینی اتھارٹی نے مذمت کی امریکہ نے خیر مقدم کیا پاکستان نے ذو معنی الفاظ استعمال کر کے اس قدر کہا کہ فلسطینی عوام کے حققو ق پر سودے بازی نہیں ہو نی چا ہئیے یہ بڑا فیصلہ اور دبنگ اعلان ہے اُمید ہے کہ نومبر کے امریکی انتخا بات سے پہلے بحرین، کویت اور سعودی عرب سمیت چند دیگر مما لک بھی اسرائیل کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات استوار کرینگے پا کستان میں رائے عامہ کا جائز ہ لیا جارہا ہے عمو ماً کسی بڑے اعلان سے پہلے یہ بات دیکھی جا تی ہے کہ لو گوں کا رد عمل کیا ہو گا َ؟ پا کستان میں دائیں بازو کی جما عتیں بھی خا مو ش ہیں با ئیں بازو کی سیا سی جما عتوں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے گو یا خیر خیریت ہے کسی کتاب یا کا رٹون کے برا بر اہمیت بھی اس خبر کو نہیں ملی ذولفقار علی بھٹو کے دور میں بنگلہ دیش نا منظور کا بڑا چر چا تھا لو گ اس خد شے کا شکا ر تھے کہ بھٹو کی حکومت بنگلہ دیش کی آزاد حکومت کوتسلیم کر ے گی اس خد شے کے پیش نظر بڑے شہروں سے لیکر چھوٹے قصبوں تک جگہ جگہ جلسے ہوتے تھے، جلو س نکا لے جا تے تھے بڑے بڑے بینر لہرا ئے جا تے تھے ان بینروں پر جلی حروف میں یہ نعرہ لکھا ہوتاتھا ”بنگلہ دیش نا منظور“ بھٹو نے اس جذ باتی کیفیت میں اسلا می سر براہ کانفرنس منعقد کرنے کا اعلا ن کیا تیا ریاں شروع ہو گئیں بنگلہ دیش کے وزیر اعظم کو خا مو شی کے ساتھ اسلا می سر براہ کانفرنس میں شر کت کی دعوت دی اور عین موقع پر بنگلہ دیش کو منظور کرنے کا اعلا ن کیا قوم شاہ فیصل سمیت عالمی لیڈروں کے استقبال میں مصروف تھی معمر قذافی، صدام حسین اور یا سر عرفات لا ہور پہنچ چکے تھے اس گہما گہمی میں بنگلہ دیش کو منظور کرنے کا اعلا ن سب کو ہضم ہو اکسی بھی طرف سے احتجا ج کی آواز نہیں آئی اینٹلی جنس کی رپورٹوں میں ایسا ہی دکھا یا گیا تھا کہ قوم کی توجہ کانفرنس پر مر کوز ہے اس کیفیت میں بنگلہ دیش نا منظور کسی کو یا د نہیں آئے گا چنا نچہ ایسا ہی ہوا اسرائیل کی تاریخ 1917سے شروع ہوتی ہے جب بر طانوی وزیر خارجہ بالفور نے شاہ سعود کو حجاز کی باد شاہت اور شریف مکہ کو اردن کی سلطنت دی بدلے میں اسرائیل قائم ہوا تو کوئی منفی ردّ عمل دیکھنے میں نہیں آیا 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی مصر اور اردن کے کچھ علا قوں پر دشمن نے قبضہ کیا گو لان کی پہاڑیوں اور دیائے اردن کے مغربی کنا رے پر واقع بستیوں کو اسرائیل سے آزاد کرانے کے لئے طویل مذاکرات ہوئے الفتح تنظیم نے چھا پہ مار جنگ لڑی الفتح کی رکن لیلیٰ خا لد نے جہا زوں کو اغوا کر کے دنیا کے بڑے مما لک کی توجہ فلسطینی مسئلے کی طرف باربار مبذول کی اس طرح طویل جدو جہد کے بعد 1992ء کے اوسلو معا ہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کے نام یا سر عرفات اور ان کے ساتھیوں کو آزاد فلسطینی ریا ست کی حکومت مل گئی 1979ء میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا 1994ء میں اردن نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے تین اہم معا ملا ت زیر التواتھے پہلا معا ملہ یہ تھا کہ بیت المقدس کے شہر کو فلسطینی اتھارٹی کا دارلخلافہ بنا یا جائے دوسرا معا ملہ یہ تھا کہ لبنان، کویت اور دیگر ملکوں میں پنا ہ گزین ہونے والے فلسطینیوں کو واپس ان کے گھروں میں بسا یا جائے تیسرا معاملہ یہ تھا کہ فلسطین میں یہو دیوں کی نئی بستیوں کے قیام پر پا بندی لگائی جائے پاکستان اب تک عرب بھائیوں کے ساتھ یک جہتی دکھا تے ہوئے اسرائیل کا دشمن نمبر ایک بنا ہوا تھا اب وہ حا لت نہیں رہی عربوں نے ایک ایک کر کے اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے پا کستان پر مدعی سست گواہ چُست والا مقولہ صادق آتا ہے معروضی حا لات اس کی طرف اشارہ کر تے ہیں امریکی انتخا بات میں یہو دیوں کی دولت کا م آتی ہے اس لئے اسرائیل کی حکومت کا تحفظ اور فلسطینیوں کی بیخ کنی کو دونوں پار ٹیاں اپنے منشور کا حصہ بنا تی ہیں انتخا بی مہم میں اسرائیل بنیا دی مو ضو عات میں شا مل ہو تا ہے امریکہ نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ایٹمی طاقت بنا نے کے لئے خصو صی قانون سازی کی تھی اور 1962ء میں پینٹا گان نے اسرائیل کو ایٹمی طاقت کا درجہ دیدیا تھا ایران کی نظر میں اسرائیل مشرق وسطیٰ کا بڑا بد معا ش ہے امریکہ کا مو قف یہ ہے کہ دشمنوں میں گھر ے ہوئے اسرائیل کو اپنی بقا کے لئے ایٹمی طا قت بننے کی ضرورت تھی اور اسکو علا قائی سفارت کاری میں سپر پاور کا درجہ ملنا چاہئیے متحدہ عرب اما رات کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمین نیتن یا ھو نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے جس معا ہدے پر دستخط کئے اس میں بیت المقدس کا کوئی ذکر نہیں کیونکہ اسرائیل پہلے ہی اس کو اپنا دارلخلا فہ بنا نے کا اعلان کیا ہو ا ہے فلسطینی اتھارٹی کے مستقل اور پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا ذکر نہیں نئی یہو دی بستیوں کے حوالے سے اس قدر لکھا گیا ہے کہ نئی بستیوں کے قیام کو ملتوی یا مو خر کیا جائے گا 1990ء میں اپریشن ڈیزرٹ سٹارم کے نام سے عراق کے خلا ف اپنی جنگ میں امریکہ نے خلیج عرب کے 6ملکوں میں فو جی اڈے قائم کئے تو غیر جا نبدار مبصرین نے پیش گوئی کی تھی کہ اب عربوں کے سینے پر مو نگ دلنے کا وقت آگیا ڈاکٹر اسرار احمد نے 1995ء میں پیش گوئی کی تھی کہ عرب کے شیوخ اور باد شاہ اسرا ئیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینگے اب پا کستان کے پاس اسرئیل کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی دوسر ا راستہ نہیں رہا جلد یا بدیر بڑا فیصلہ اور دبنگ اعلا ن سامنے آئے گا۔