داد بیداد ،،،،،،،، ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی،،،،،،،،،،،جو ہر قابل کا ترکِ وطن

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ،،،،،،،، ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
جو ہر قابل کا ترکِ وطن
بڑی خبر یہ ہے کہ انتظا می پو سٹوں کے بڑے امتحا ن سی ایس ایس میں ڈاکٹروں اور انجینئروں کی بڑی تعداد اچھے نمبروں سے پا س ہو کر اسسٹنٹ کمشنر، اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پو لیس اور دیگر عہدوں پر تعینات ہو جاتی ہے اس کو جر ہر قابل کا ضیاع کہا جا تا ہے لیکن اس سے بھی زیا دہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور انجینئروں کی بڑی تعداد ملک سے با ہر چلی جا تی ہے ترک وطن کر کے یو رپ، امریکہ، کینڈا، ملا ئشیا اور خلیجی مما لک کا رُخ کر تی ہے کسی بھی حا لت میں وطن واپس آنا نہیں چاہتی ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ پا کستان کو اسلا م کے نام پر حا صل کیا گیا تھا اور اب اس بات پر شرمندگی بھی ہے کہ مسلمان گھرا نوں میں جو لا ئق، ہنر مند اور قابل نو جوان پیدا ہوتے ہیں وہ اسلام کے قلعے اور اسلام کے نام پر حاصل کئے ہوئے وطن میں رہنا نہیں چاہتے ان کی پہلی تر جیح یہ ہو تی ہے کہ پہلی فرصت میں ملک سے باہر چلے جا ئیں اور عمر بھر ملک سے باہر رہیں یورپ اور امریکہ یا خلیجی مما لک کے بعد ملا ئشیا اور بنگلہ دیش جا نے کو بھی پا کستان میں رہنے پر وہ ترجیح دیتے ہیں اس کی بے شمار وجو ہات ہو سکتی ہیں ملک کا سیا سی اور انتظا می ڈھا نچہ ان میں سب سے نما یاں ہے یہ ہمارا سیا سی اور انتظا می ڈھا نچہ ہے جو نئی نسل کو ملک کے مستقبل سے ما یو س کر تا ہے میرا دوست کا لج میں ایف ایس سی کی کلا س کو پڑھا تا تھا تو اپنے قابل طلباء پر فخر کر تا تھا کلا س میں بھی اور کلا س کے با ہر بھی اس بات پر زور دیتا تھا کہ میری کلا س کے قابل بچے آگے جا کر ملک اور قوم کی خد مت کرینگے اب وہ ریٹا ئر منٹ کی زندگی گذار تا ہے تو وہ لائق، فائق اور قابل بچے ان کو زندگی کے کسی شعبے میں نظر نہیں آتے ایف ایس سی میں جس نے 90فیصد نمبر حا صل کئے تھے وہ طا لب علم ڈاکٹر بنے کے بعد پو لیس سروس میں گیا کسی دوسرے صوبے میں اس کی پوسٹنگ ہوا کرتی ہے اس طرح انجینئرنگ یو نیورسٹی میں گولڈ میڈ ل حا صل کرنے والا طا لب علم ایک بڑے بینک کا وائس پریذیڈنٹ لگا ہوا ہے وہ کسی دوسرے صوبے میں جاتا ہے تو میڈیکل میں گولڈ میڈل لینے والا طالب علم اس کو سلام کر کے بڑے فخر سے بتا تا ہے کہ میں اس ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہوں استاذ کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے برطانیہ، امریکہ، کینڈا یا کسی اور ملک جا تا ہے توکلا س کے قابل ترین طلباء اس کو وہاں ملتے ہیں خلیجی مما لک کے کسی ہوائی اڈے پر ٹرانزٹ فلا ئیٹ کے انتظار میں بیٹھتا ہے تو ایسے ہی کسی فلا ئیٹ کے انتظار میں اس کے طالب علموں کی اچھی خا صی تعداد نظر آتی ہے گفت و شنید سے معلوم ہو تا ہے کہ استاذ کی پو ری کلا س ملک سے باہر ہے اور جو طا لب علم با ہر نہیں نکل سکے وہ بھی ویزا لگوانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں انگریزی میں اس کیفیت کے لئے برین ڈرین (Brain drain)کی تر کیب استعمال ہوتی ہے اور اس کیفیت کو کسی ملک کی سب سے بڑی بد نصیبی سے تعبیر کیا جا تا ہے ہمارے آئی ٹی پروفیشنلز، بزنس پرو فیشنلز اور دیگر شعبوں کے ما ہرین کی بڑی تعداد ہر سال ملک چھوڑ کر با ہر جا رہی ہے بیرنی مما لک میں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا تا ہے ”غربت میں جا کے چمکا گمنام تھا وطن میں“ وطن عزیز کا سیا سی اور انتظا می ڈھا نچہ ایسا ہے جس میں جو ہر قابل کو کھپا نے کی گنجا ئش نہیں ہے جوہر قا بل کے لئے ساز گار ما حول مہیا کرنے کی صلا حیت نہیں ہے ایک نو جوان ایم بی بی ایس،بی ڈی ایس، بی ایس سی انجینئر نگ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اپنے شعبے میں آجا تا ہے تو اس کو اچھوت کادرجہ دیا جا تا ہے ایک سپرنٹنڈ نٹ، سیکشن افیسر یا اکا ونٹنٹ کو اس کا بوس (Boss)بنا دیا جا تا ہے 10سا لوں تک اس کو گھر نہیں ملتا 18سالوں تک اس کو تر قی نہیں ملتی سعودی عرب میں ایک ڈاکٹر سے ملا قات ہوئی مو صوف سپیشلائزیشن کے بعد اپنے آبائی ضلع میں دکھی انسا نیت کی خد مت کا جذبہ لیکر گئے تھے 8سا لوں تک اس کو جو نئیر آسا می پر رکھا گیا تر قی کا کوئی امکان نظر نہیں آیا تو اس نے استغفٰی دیدیا اور ملک چھوڑ دیا ایک انجینئر نے ملک چھوڑ نے کی وجہ بتا تے ہوئے کہا کہ دفتری عملہ تقا ضا کر تا ہے کہ تنخوا کے انتظار میں بیٹھ کر وقت ضا ئع مت کرو خوب کماؤ خود بھی کھاؤ ہمیں بھی کھلاؤ دفترکے اندر جھا نک کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک ضلع کے اندر سپشلسٹ ڈاکٹروں کی 26آسا میاں خا لی ہیں، 12انجینئروں کی پوسٹوں پر نئی تقرریوں کا انتظا ر ہے گذشتہ 10سالوں سے نئی تقرریاں نہیں ہو رہی ہیں محکمہ صحت، محکمہ تعمیرات، محکمہ آب پا شی محکمہ بلدیات، محکمہ آب نو شی وغیرہ کو وقت نکا ل کر پا ک فوج، پو لیس سروس اور ایڈ منسٹریٹیو سروس میں افیسروں کو دی گئی مرا عات اور دفتر میں ساز گار ما حول کا جائزہ لینا چا ہئیے پھر پتہ لگے گا کہ جوہر قابل کو دفتر کے اندر کس طرح کھپا یا جا تا ہے اور کس طرح ملک چھوڑ نے سے بچا یا جا سکتا ہے جوہر قابل کا اپنے شعبے کو چھوڑ دینا بہت بڑا مسئلہ ہے اگر پو لیس یا انتظا میہ میں کوئی عہدہ لینا تھا تو انجینئرنگ یا میڈیکل کی تعلیم میں وقت اور پیسہ لگا نے کی کیا ضرورت تھی؟ ملک چھوڑ کے جا نا نئی نسل کی مجبوری ہے عمران خان کا وژن تھا کہ با ہر سے لو گ نو کری کے لئے پا کستان آیا کرینگے اس وژن کا راستہ شاید گم ہو گیا قابل عمل بات وہی ہے جو سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کہا کرتے تھے کہ ملک میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے اعتماد پیدا ہو گا تو ساز گار ماحول وجود میں آئے گا اعتماد کی فضا اور ساز گار ماحول کا آپس میں گہرا تعلق ہے ان دو عنا صر کے ساتھ نئی نسل کا مستقبل وابستہ ہے اور نئی نسل کو بہتر مستقبل کی ضما نت دی جائے تو جو ہر قابل کا ترک وطن یا برین ڈرین رک جائے گا ورنہ تاریکی ہی تاریکی ہے۔