اپر چترال کے لوگوں کے بجلی بحالی کی ڈیڈ لائن ختم ، ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ پر مجبور

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) تحریک حقوق عوام اپر چترال کے جنرل سیکرٹری عبداللہ نے کہا یے۔ کہ اپر چترال کے لوگوں کی طرف سے بجلی کی بحالی کے حوالے سے دی گئی ڈیڈ لائین آئندہ ہفتے ختم ہو رہی ہے۔ اس دوران اگر بجلی بحال نہیں کی کی گئی۔ تو ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ پر مجبور ہوں گے۔ اس سے پہلے بھی لانگ مارچ کا سہارا لے کر ہم نے بجلی حاصل کی تھی۔چترال پریس کلب میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا۔ کہ لانگ مارچ کی صورت میں تمام تر کشیدہ حالات اور جانی ومالی نقصانات کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ،حکومت،پیڈو اور پیسکو پرعائد ہوگی۔ انہوں نے کہا۔ کہ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ کہ اپر چترال میں چوبیس گھنٹوں کے دوران صرف تین گھنٹے بجلی ملتی ہے۔ جکہ اکیس گھنٹے لوگ لوڈ شیڈنگ میں گزارتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں لوئر چترال میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ صرف پانچ سے چھ گھنٹے ہے۔ جو کہ اپر چترال کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔ انہوں گذشتہ روز لوئر چترال میں بجلی کے حوالے سے احتجاجی جلسے کو مقامی سیاسی نمایندگان اور یونین کے ذمہ داروں کی طرف سے بدنیتی پر مبنی قرار دے کر اس کی پر زور مذمت کی اور کہا۔ کہ ان سیاسی قائدین نے بجلی کا مستقل حل نکالنے کی بجائے واضح الفاظ میں اپر چترال کو بجلی نہ دینے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جو کہ چترالی قوم کو تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اگرچہ چترال انتظامی لحاظ سے دو اضلاع میں تقسیم ہو چکا ہے۔ لیکن زبان و تہذیب و ثقافت کو نہ تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ یہ ممکن یے۔ انہوں نے اس بات کو مسترد کیا۔ کہ ریشن بجلی سے لوئر چترال کو بجلی نہیں مل رہی تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے۔ کہ رشن بجلی گھرسے برنس سے چترال ٹاون کے دنین تک بجلی دی جاتی رہی۔ اور لوگ استفادہ کرتے رہے ہیں۔ہم نے کبھی بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ انہوں نے کہا۔ کہ اپر چترال کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے سیاسی قائدین اور دیگر نمایندگان مل کر واپڈا حکام سے 55ارب روپے کے خطیر فنڈ سے تعمیر ہونے والے گولین ہائیڈل پاور اسٹیشن کی پیداوار 106میگاواٹ سے گر کر صرف 6 میگاواٹ پر آنے کے بارے میں سوال کرتے۔ اور ڈیزائن بنانے والے انجینئر کو پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کرتے تو وہ منافرت پھیلانے سے زیادہ بہتر تھا۔ انہوں نے کہا۔ اپر اور لوئر کیبے جا تنازعات پیدا کرکے ہمیں نفرتوں کو پروان چڑھانے سے پر ہیز کرنی چاہیے۔