چترال میں اتوار کی رات سے نشیبی علاقوں میں ہلکی اور بالائی علاقوں میں تیز برفباری کا سلسلہ جاری ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) چترال میں اتوار کی رات سے نشیبی علاقوں میں ہلکی اور بالائی علاقوں میں تیز برفباری کا سلسلہ جاری ہے۔ لواری ٹنل پر رات کو پڑنے والی برف کے باوجود ٹریفک بحال رکھنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم ٹنل روڈ پر پھسلن کی وجہ سے گاڑیوں کو آر پار جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ زیادہ تر گاڑیاں موڑ کاٹتے ہوئے پھسل کر راستے سے رخ تبدیل کرتے رہے۔ جنہیں دھکے دے کر دوبارہ روڈ پر لانے کی کو ششیں ہوتی رہیں۔ اس وجہ سے اکثر مسافر ڈر اور خوف کے باعث گاڑی سے نیچے اتر کر اپنے سفر پر ہی نالاں رہے۔ خاص کر بچے اور خواتین بہت زیادہ خوف کا شکار ہوتی رہیں۔ اکثر گاڑیوں کے ٹائروں پر پھسلن سے بچنے کیلئے چین چڑھایا گیا۔ اور لواری کرا س کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ بھی بے سود رہے۔ اور کئی گاڑیاں لواری کے دونوں طرف پھنسی رہیں۔ تاہم کسی قسم کے حادثے کی اطلاع نہیں ملی۔ چترال کے دوسرے مقامات کالاش ویلیز، مڈکلشٹ، گبور، بگوشٹ، گولین وادی میں برف زیادہ رہی۔ تاہم کہیں بھی راستہ بند ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔ اتوار کے دن برفباری کی وجہ سے چترال شہر اکے اندر اور مضافات میں آمدورفت نہ ہونے کے برابر رہی۔ اور لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے۔ کہ کئی سیاح اس کے باوجود برفباری سے لطف اندوز ہونے کیلئے چترال کا رخ کر چکے ہیں۔ یہ ایڈونچر ٹورسٹ ہیں۔ جو مہماتی سیاحت میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ سیاح چترال میں کالاش ویلی میں رہیں گے۔ اور برف پر کھیلی جانے والی اُن کی معروف کھیل کریک گال میں حصہ لیں گے۔ جو برفباری کے دوران کالاش ویلیز میں گاءوں کی سطح اس کے مقابلے ہوں گے۔ برفباری سے اُن علاقوں کے لوگوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ تاہم موسم کی خرابی کے ساتھ ہی جلانے کی لکڑی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ اور زیادہ تر لکڑی کے ٹل والے منہ مانگی قیمت وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن کی گرفت کرنے والاکوئی نظر نہیں آرہا۔ انتظامیہ کے سامنے تو یہ لوگ سرکاری ریٹ پر فروخت کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن یہ انتظامیہ کے آفیسران کی موجودگی میں صرف دیکھانے کی حد تک ہے۔ چترال شہر میں جلانے کے لئے شاہ بلوط کی لکڑی 600روپے سے زیادہ میں فروخت ہوتی ہے۔ جبکہ گرم چشمہ میں 740مستوج اور موڑ کہو میں 780 روپے فی من فروخت ہوتی ہے۔ لیکن یہ تو وہی لوگ خرید لیتے ہیں جو مالی طور پر استطاعت رکھتے ہیں۔ غریب لوگوں کی حالت انتہائی طور پر قابل رحم ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے۔ کہ ایک طرف اشیاء خوردونوش کی ہو شرباء قیمتوں نے زندگی مشکل بنا دی ہے۔ تو دوسری طرف بجلی بلوں میں حکومت کی طرف سے آئے دن اضافے نے سانس ہی چھیننے کی راہ ہموار کردی ہے۔