صوبائی حکومت خصوصاََ وزیر اعلی چترال کے مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ مولانا چترالی

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل) ممبر قومی اسمبلی چترال مولانا عبدالاکبر چترالی نے یونین کونسل کوہ کے چار دیہات گولین،موری، برغوزی اور کوجو کو آفت زدہ قرار دینے اور ان علاقوں میں ابنوشی اور ابپاشی کا مسئلہ ترجیحی بنیادو ں پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ اس علاقے میں قحط کا خطرہ ٹل جائے جہاں پانی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کی معیشت بربادہوکر رہ گئی ہے۔ جمعرات کے روز چترال پریس کلب میں جمعرات کے روز امیر جماعت اسلامی مولانا جمشید احمد عبدالقادر،سابق ناظم شمشیر خان و دیگر کی معیت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ کہ گولین سیلاب کے نتیجے میں تمام آبی ذرائع دریا برد ہونے کی بنا پر گاؤں موری پائین، کوغذی، برغوزی اور اطراف کے دیہات سمیت چترال ٹاون کے لوگ پانی کی نایابی کے باعث شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اور نہری نظام کی تباہی سے علاقوں کی تمام فصلیں، پھلدار درخت اور جنگلات مکمل طور پر سوکھ گئے ہیں۔ اور لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس لئے حکومت اس علاقے کو آفت زدہ قرار دے کر فوری طور پر آبنوشی اور آبپاشی سکیموں کی بحالی کیلئے فنڈ جاری کرے۔ انہوں نے کہا۔ کہ مروجہ طریقہ کار کے تحت فنڈ ریلیز ہونے میں ایک سال کا عرصہ اور لگ سکتا ہے۔ ایسے میں رہی سہی درختیں اور جنگلات بھی ختم ہو جائیں گی۔ حکومت بلین ٹری سونامی کے نام سے نئی شجر کاری پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ اور یہاں پہلے سے موجود باغات و جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ جن پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ایم این اے نے کہا۔ کہ چترال میں مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ لیکن ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال، ٹی ایچ کیو بونی، دروش، آر ایچ سی ایون، آرندو، وریجون موڑکہو میں ڈاکٹروں بالخصوص لیڈی ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔ اور محکمہ ہیلتھ چترال کے مطابق میڈیکل آفیسرز کی 97میں سے 72اور وومن میڈیکل آفیسر ز کی 12آسامیوں میں سے 11خالی ہیں۔ اور موجود ڈاکٹروں پر مریضوں کا اتنا دباؤ ہے۔ کہ صحیح طور پر تشخیص کی راہ میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس لئے فوری طور پر ڈاکٹر تعیناتی کے احکامات صادر کئے جائیں۔ انہوں نے چترال میں زیر تعمیر پُلوں کیلئے فنڈ ز ریلیز کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا۔ کہ ایون، بروز، پوکیڑ، اویر، کوشٹ، موژگول پُلیں فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے کام رکے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مولانا چترالی نے نئے ضلع اپر چترال کے مختلف اداروں کے ہیڈز کی اپنے متعلقہ تحصیلوں کی بجائے بونی میں قیام کرکے عوامی کاموں سے پہلو تہی کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اورعوام کے مسائل حل کرنے کیلئے اُنہیں اپنے مقام پر حاضری کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ ایم این اے نے بونی بوزوند روڈ کی تعمیر میں سست روی کو ناقابل قبول قرار دیا۔ اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو سے کام میں سستی کی وجوہات معلوم کرنے اور کام کی رفتار تیز کرنے کا مطالبہ کیا۔ ممبر قومی اسمبلی نے لواری ٹنل چترال سائیڈ پر اپروچ روڈ کی تعمیر کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ اور کام کو معیاری بنانے و تیز کرنے کیلئے این ایچ اے سے اپیل کی۔ انہوں نے کہا۔ کہ ایون، بروز، بمبوریت روڈ کا پی سی ون تیار ہو چکا ہے، بہت جلد کام کا آغازکیا جائے گا۔ انہوں نے وزیر اعلی محمود خان سے چترال کے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں خصوصی توجہ دینے کی اپیل کی۔ ایم این اے نے کہا۔ کہ دو ارب 92کروڑ روپے کے فنڈ سے ضلع کے مختلف علاقوں میں ٹرانسمیشن لائن و دیگر ضروریات پوری کی جائیں گی۔