صدا بصحرا۔۔جتنے منہ اتنی باتیں۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

لو گوں نے کہنا شروع کیا ہے کہ حکومت نے وزیر خزانہ کو کس لئے گھر بھیجدیا؟ سٹیٹ بینک کا گور نر باہر سے کیو ں لے آیا؟ مشیر خزانہ اور چیر مین فیڈرل بورڈ آف ریو ینیو دوسروں کی مر ضی کے بندوں کو کیوں لگا یا گیا؟ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے رو حا نیت کو ”رعونت“ اور ”روغا نیت“کیوں پڑھا؟ لو گ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاک فو ج کیوں خا مو ش ہے؟ سیکور ٹی رسک کا اصول کیو ں نہیں آز ما یا جا تا؟ لو گ یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک پر انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کی حکومت لانی تھی تو 25جو لا ئی 2018ء کو 13ارب روپے خر چ کر کے انتخا بات کیو ں کرائے گئے تھے؟ غرض جتنے منہ اتنی باتیں، ہمیں ان باتوں پر توجہ دینے کے بجا ئے اپنے ہاں پائے جا نے والے اندرونی تضا دات پر نظر رکھنی چاہئیے ہمارے حکمرانوں نے پبلک سیکٹر کی 29یو نیور سٹیوں کے بجٹ میں کٹو تی کی ہے طلبہ کے و ظا ئف بند کر دیئے گئے ہیں، لیپ ٹا پ سکیم ختم کر دی گئی ہے ریسرچ گرانٹس پر پا بندی لگائی گئی ہے حکمران نجی شعبے کی نئی یو نیور سٹی کا سنگ بنیاد رکھ کر اس کو پاکستان میں تعلیم کی تر قی کے لئے مو جو دہ حکومت کا بہت بڑا کار نا مہ قرار دے رہے ہیں ضلع جہلم میں سو ہا وہ کے مقام پر قا ئم ہونے والی القادر یو نیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ اس یو نیور ستی میں نبی کریم ﷺ کی سیرت پر تحقیق ہوگی گو یا کراچی یو نیورسٹی، پنجاب یو نیور سٹی،بہاوالدین زکریا یو نیورسٹی، شاہ لطیف یونیور سٹی اورانٹر نیشنل اسلامک یو نیور سٹی میں سیرت پر کوئی کام نہیں ہوا ہے ایک بڑی مسجد میں بڑا مدرسہ تھا تبلیغی جما عت مسجد میں سہ روزہ لگانے آئی جما عت کے امیر نا خواندہ صو فی اورفنافی التّبلیغ تھے انہوں نے مدرسہ کے بڑے استاذ سے خصوصی ملا قات کی تحا ئف پیش کئے اور پو چھا کہ آپ کے مشا غل کیا ہیں؟ استاذ نے بتایا کہ صبح اذان سے پہلے دارالحفظ کے طلباء کو پڑ ھا تا ہو ں نما ز فجر کے بعد مسجد میں ایک گھنٹے کا درس قرآن ہو تا ہے اشراق کے بعد فنون کے طلبہ کو پڑ ھا تا ہو ں ظہر سے عصر تک پھر دارالحفظ کے طلبہ کو پڑ ھا تا ہوں عصر اور عشاء کے در میان مسجد کے اندر درس قرآن اور درس حدیث کے دو حلقوں میں درس دیتا ہوں یہ رو داد سننے کے بعد امیر صا حب نے پو چھا دین اور امّت کی فکر کے لئے کیوں وقت نہیں نکا لتے؟ مو لوی صا حب نے جواب دیا ”مُر غے لڑانے“ کا یہ کام ہی ایسا ہے اس میں دین اور امت کی فکر کے لئے فر صت نہیں ملتی ہمارے حکمران ایک نجی یو نیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے امیر صاحب کی طرح یہ بات فرض کر لیتے ہیں کہ اس یو نیور سٹی سے پہلے سیرت النبی ﷺ پر کسی نے کام ہی نہیں کیا کوئی تحقیق ہی نہیں ہو ئی جس طرح نا خواندہ امیر صا حب کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ حفظ، قرآن، در س قرآن، در س حدیث، منقو لات اور معقولات کے اسباق کا دین اور امت سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح حکمر ان اس خو ش فہمی میں مبتلا ہو تے ہیں کہ جن یو نیور سٹیوں کا سنگ بنیاد انہوں نے نہیں رکھا وہاں نبی کریم ﷺ کی سیرت اور رو حا نیات یعنی تصوف پر کوئی کا م ہی نہیں ہو رہا ؎
حیراں ہوں روُوں دل کو یا پیٹو ں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھو ں نو حہ گر کو میں
ہمارے ہاں سیا ست کے تضا دات، حکومت کے تضا دات، ذرا ئع ابلاغ کے تضا دات اور معیشت و معا شرت کے تضا دات کی لمبی فہرست ہے جو حکمر اں کہتا ہے میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا وہ یہ بات بھی ڈکٹیشن لینے کے بعد کر تا ہے ہما رے ہاں جو لیڈر کہتا ہے کہ غیروں کی غلا می نہیں کروں گا وہ غیروں کی غلامی کو اپنے لئے فخر سمجھتا ہے اس تضا د کو آپ دیکھیں 22کروڑ کی آبادی میں 2لاکھ ما ہرین کا ایک پول (Pool) مو جو د ہے جو دنیا بھر میں چوٹی کے معا شی ما ہرین پر مشتمل ہے مگر ہمیں وزیر خزانہ، چیئر مین ایف بی آر اور گور نر سٹیٹ بینک کے عہدوں پرکام کرنے کے لئے ایسا بند ہ نہیں ملتا جو آئی ایم ایف کے لئے قا بل قبول ہو ہم لو گ بجٹ کو متو ازن رکھنے کے لئے پنشن اور تنخوا ہوں میں کٹو تی کررہے ہیں اخبارات اور ٹیلی وژن کے اشتہارات پر پا بندی لگاتے ہیں مگر باہر سے 25ہزار ڈا لر تنخوا ہ لینے والے آدمی کو بلا کر اہم عہدے پر لگا تے ہیں اگر وہ پرانی تنخوا ہ پر آئے تب بھی اس کی پا کستا نی تنخوا ہ35لا کھ روپے سے کم نہیں بنتی بعض من چلوں نے اس پریہ گرہ لگائی ہے حکمرانوں نے اعلان کیا تھا کہ ہماری حکومت میں اتنی خو ش حا لی ہو گی کہ با ہر سے لو گ نو کریاں ڈھونڈ نے کے لئے پاکستان آئینگے اب ایسا ہی ہوا ہے مگر یہ خوشخا لی کی جگہ بد حا لی کی وجہ سے ہوا ہے بد حا لی نے حکمر انوں کو آئی ایم ایف کے دروازے پر جا کر قرض کی بھیک مانگنے پر مجبور کیا جو لو گ پہلے کہتے تھے کہ خود کشی کرینگے مگر آئی ایم ایف کے دروازے پر نہیں جائینگے بعد میں انہیں خیال آیا کہ خود کُشی حرام بھی ہے اور مشکل بھی،اس کے مقا بلے میں آ ئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا نا بہت آسان ہے آئی ایم ایف وا لوں کو ہمارے لیڈروں کے منشور کا پتہ تھا انہوں نے کہا ناک رگڑو،لیڈروں نے ناک رگڑ ا تو بولے جب تک تمہاری قوم خود کُشی نہیں کرے گی ہم تمہیں آنہ پائی نہیں دینگے؟ لیڈروں نے حیران ہو کر پو چھا قوم کس طرح خود کشی کرے گی؟ آئی ایم ایف وا لو ں نے کہا میٹھی گولی سے خود کشی کریگی ہم اپنے بندے لاکراہم پو سٹوں پر بٹھا ئینگے ہمارے بندے تمہارے شر یا نوں میں زہر داخل کرینگے، غیرت، خود مختاری، عزت اور خود داری کے جراثیم کش سپرے کرینگے جس کے بعد تمہارا شعور مر جائیگا، غیر ت کی مو ت واقع ہو گی، خود مختاری پر دھبّہ لگ جا ئے گا آزاد قوم ہونے کا گمان خاک میں مل جا ئے گا یہ خیال ارائی نہیں فکر کی دشت پیما ئی نہیں حقیقت ِحال ہے ہماری نسل کے لو گوں نے 1960کے عشرے میں سکول کی کتا بوں میں پڑھا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر کو غلام بنا لیا وہ غلام بنا نے نہیں آئے، تجا رت کرنے آئی تھی آئی ایم ایف نئی کمپنی ہے قرض دینے کے لئے آئی ہے قر ض کی شرائط پر ہما ری طرف سے بھی آئی ایم ایف کے نما ئندے دستخط کرینگے اُن کی طرف سے بھی اُن کے اپنے لوگ دستخط کرینگے اس کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ ”پاکستان کمپنی“ کا نام دیا جائے گا اور یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی کمپنی ہو گی جس کے کارندے غلا موں کے ملک میں نو کری کرینگے اور اپنے غلا موں سے سود لینگے غلام بھی فخر کرینگے کہ باہر سے لوگ نو کریوں کے لئے پا کستان آرہے ہیں لو گ کہتے ہیں کہ پا کستان تاریخ کے دو راہے سے آگے جا کر غلا می کی شاہراہ پرکھڑا ہے جتنے منہ اتنی باتیں