ضلع کی واحد ڈی ایچ کیو ہسپتال گوناگوں مسائل کا شکار،72 ڈاکٹروں کی اسامیاں خالی

Print Friendly, PDF & Email

چترال ( فخر عالم سے ) ساڑھے چار لاکھ کی آبادی کی علاج معالجہ کے لئے واحد سہولت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال کئی ایک گھمبیر مسائل سے دوچار ہیں جن میں ڈاکٹروں اور اسپیشلسٹوں کی 125 اسامیوں کا خالی ہونا سر فہرست ہے جن میں چیف میڈیکل آفیسر گریڈ 20 کاایک،پرنسپل میڈیکل آفیسرز گریڈ 19 کے 12 ، سنئیر ڈسٹرکٹ سپشلسٹ گریڈ 19کے ایک، انستھیسسٹ گریڈ 19 کے ایک، کارڈیالوجسٹ 2، چلڈرن ا سپشلسٹ 2، چیسٹ اسپشلسٹ 1،ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ 2،ڈسٹرکٹ اسپشلسٹ گیسٹرو1،ڈسٹرکٹ اسپشلسٹ نفسیات 1، ڈسٹرکٹ اسپشلسٹ یورالوجی 1،چیف ڈسٹرکٹ اسپشلسٹ آئی 1،گائنا کالوجسٹ 1، نیفرالوجسٹ 1، آرتھوپیڈک سرجن 2، فزیو تھراپسٹ1، ریڈیالوجسٹ 1، اسکن اسپشلسٹ 1، سرجیکل اسپشلسٹ 1، ڈینٹل سرجن 1،سنئیر میڈیکل آفیسر 20، فیمل ڈنٹل سرجن 1اور میڈیکل آفیسر ز کی 21پوسٹ سمیت مجموعی طور پر جنرل ڈیوٹی ڈاکٹروں کی 72اسامیاں شامل ہیں۔ 1983ء میں چترال کی محدود آبادی کیلئے تعمیر شدہ اس ہسپتال میں مریضوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ آباد ی میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ تلخ صورت حال ہے کہ ضلعے کے طول وعرض میں قائم بیسک ہیلتھ یونٹوں، رورل ہیلتھ سنٹروں اور دروش، بونی اور گرم چشمہ میں تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہپسپتال میں ڈاکٹروں سمیت دوسرے سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے یہ ہسپتال بیک وقت پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کئر سسٹم ہے۔ 2015کے شدید زلزلے میں بلڈنگ کو جو نقصان پہنچا، اس کی طرف آج تک کسی سیاسی نمایندے، ممبر ان سمبلی یا محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے توجہ نہیں دی اوریہ موئن جو داڑو کے کھنڈرات کا سماں پیش کررہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہسپتال کے 507منظور شدہ اسامیوں میں سے 382اسٹاف اپنی ملازمتوں پر موجود ہیں۔ ہسپتال میں 2009میں خریدے گئے ڈایا لیسز کے پرانے مشین موجود ہیں اور مریض چار سے پانچ ہزار روپے ڈایالیسزکٹ (dialysis kit)کی خریداری اپنی جیب سے کرنے پر مجبور ہیں جبکہ یہ کٹ دیگر ہسپتالوں میں مفت مہیا کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایمرجنسی میں حکومت کے دعوے کے برعکس فری ادویات کی فراہمی بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے اور مریض ایمر جنسی ادویات بھی بازار سے خریدتے ہیں۔ہسپتال میں کارڈیالوجی یونٹ اور تمام متعلقہ ایکویپمنٹ تو موجود ہیں لیکن ڈاکٹر نہ ہونے کی بنا پر دل کے مریضوں کو بھی ایمرجنسی میں داخل کیا جاتا ہے۔ یوں ہارٹ اسپیشلسٹ نہ ہونے کی بنا پر اکثر دل کے معمولی نوعیت کے مریضوں کو بھی پشاور اور دوسرے شہروں کے ہسپتالوں کو ریفر کیا جاتا ہے جس سے غریب لوگوں پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ ہسپتال میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین نے اس کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا ہے اور چترال شہر سے دور کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین نے پرانے پرائیویٹ رومز سمیت کئی کمروں اور کواٹرز پر قبضہ کر لیا ہے۔ بعض ملازمین چترال میں اپنے گھرکرائے پر دے کر خود ہسپتال کے بنگلوں اور کوارٹر میں رہ رہے ہیں اور یوں ہسپتال بعض ملازمین کے نرغے میں ہے اور باہر سے آنے والے ڈاکٹرز اور دیگر ملازمین کی راہ میں کئی مسائل پیدا کرکے ان کو دلبرداشتہ کیا جاتا ہے جس کی مثال مبینہ طور پر معروف چترالی ہارٹ اسپشلسٹ کے ساتھ کئے گئے سلوک کی صورت میں موجود ہے۔ ہسپتال کے کچروں کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے کیلئے ایک معروف غیر سرکاری ادارے نے انسنیریٹر(incinerator)مشین لگائی ہے لیکن اس کو مستقل بنیادوں پر چلانے کیلئے فیول کے اخراجات برداشت کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہسپتال کے حوالے سے ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال ڈاکٹر اسرار اللہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہسپتال اسٹاف کی کمی اور کئی دیگر مسائل کے باوجود اپنی خدمات بہتر طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ تاہم ہسپتال کی حالت پر حکومتی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کیٹیگری بی ہسپتال ہے اور ہسپتال میں نئی تعمیرات کیلئے جگہ موجود ہیں جبکہ پرانی بلڈنگ کو ڈبل سٹوری کرکے وارڈ اور کمروں کی کمی پوری کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر اسرار کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں سی اینڈ ڈبلیو کی توجہ از بس ضروری ہے تاکہ ہسپتال کے متاثرہ فرش اور دیواروں پر ٹائل لگا کر اسے خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ صفائی کیلئے اسے بہتر بنایا جا سکے اور سالانہ اسے رنگ و روغن کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ ایم ایس نے کہا کہ ہسپتال میں بعض میجر اپریشن کئے جاتے ہیں اور ای سی جی، الٹراساونڈ، ایکسرے پلانٹ اور لیبارٹری کی سہولت موجود ہے تاہم فنڈ کی کمی کے باعث ادویات کی شارٹیج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال کیلئے 14ایمبولنس کی ڈیمانڈ ہے جبکہ صرف پانچ ایمبولینس موجود ہیں۔