رموز شاد ؔ۔۔ تعلیم یافتہ گدھے۔۔(معذرت کے ساتھ)۔۔ تحریر۔۔ارشاد اللہ شاد ؔ

Print Friendly, PDF & Email

میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم معاشرے کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے نہ کہ بھیک یا کوئی رعایت! اس لئے تعلیم کے شعبے کو تجارتی منافع کی طرح استعمال کرنا انسانیت کے خلاف ایک جرم سمجھنا چاہئے۔ یہ تجارتی سوچ ہی تو ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام معاشرے کو معقول،شائستہ،اخلاقی تعلیم دینے سے قاصر ہے۔ بہت سے تعلیمی ادارے طلباء کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے ہر سال اشتہارات پر لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن اکثر تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے اس قدر اخراجات تو کجا محض توجہ بھی نہیں دی جاتی۔ ہمارے ہاں درس و تدریس کا تمام طریقہ کار مقابلے بازی پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔ بہت سے طالبعلموں کو مقابلے بازی کی اس اذیت اور پوزیشن نہ آنے پر والدین کے غم و غصے کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں میں ایک بات کرنے جارہا ہوں کہ کہ قصور ان تعلیمی اداروں کا نہیں والدین کا بہت زیادہ ہے جو بچے کی فرسٹ پوزیشن تو دیکھ رہے ہیں، ایوارڈز، میڈیلز کے ساتھ سیلفیاں بھی سوشل میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں۔ انگلش میں بات چیت کررہے ہیں لیکن قابلیت اور علم کس مقام پر ہے یہ دیکھنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک استاد اور ایک استانی ایک کلاس میں بیس سے تیس بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں لیکن ایک ماں باپ اپنے دو تین چار پانچ بچوں کو قابلیت نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ان کے نزدیک قابلیت کا معیار فرسٹ پوزیشن، ایوارڈز، میڈیلز،سرٹیفیکٹ ہی رہ گیا ہے۔ تعلیم کسی قوم کی تعمیر و ترقی اور عروج و کمال کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ بات والدین کے اگر سمجھ میں آئے کہ تعلیم کا مقصد صرف درس و تدریس اور امتحانات کی تیاری نہیں ہے اور نہ اس کا مقصد حصول معاش ہے۔ بلکہ تعلیم کا اصل مقصد بچے اور بڑو ں کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کرنا ہے جس سے دور جدید کے تعلیم یافتہ بچے نوجوان بہت دور کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ دور علم کا دور ہے۔علوم و فنون، سائنس ٹیکنالوجی کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ یہ بات لائق تحسین ہے اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے زیر اثر نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے لیکن دوسری جانب نئی نسل میں اخلاق و کردار کی بہت کمی محسوس کیا جارہا ہے ایسے میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو اخلاقی تربیت پر توجہ مرکوز کریں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے بچے بچے واقف ہے لیکن ان حالات میں اخلاق کا زوال ہماری تہذیب کا زوال ہے۔ ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے تمام ادارے اخلاقیات کا درس لازمی دیں۔ شکریہ

(نوٹ)۔۔۔میرا کسی ادارے سے کوئی بھی ذاتی اختلاف نہیں البتہ چند الفاظ(مشورہ) لکھنے کی ہمت تب ہوئی جب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج ایک پرائیوٹ ادارے کے چند بچے ہوٹل میں کھانا کھارہے تھے اسی اثنا میں بھی کسی کام کے سلسلے میں وہاں پہنچ گیا۔ ان کی آپس میں ایسی گفتگو چل رہی تھی کہ میرے پاس الفاظ نہیں لکھنے کیلئے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے تھے۔ بہت تعجب ہوا اور بہت دکھ پہنچا مجھے،کیونکہ وہ ہمارے مستقبل کے روشن تارے ابھی سے تاریکیاں سمیٹے پھر رہے ہیں۔اس قوم کی اخلاقی دیوالیہ پن کا کہاں تک روئیں؟اس گناہگار آنکھوں سے آج ایسے طالبعلموں کو دیکھا جو ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیوں سے مخاطب کرکے ہنستے تھے اور انکی انا کو ذرا بھی ٹھیس نہیں پہنچتا۔ جاہل عوام دیہاتی بچوں سے کبھی ایسا نہیں سنا تھا۔بدقسمتی سے آج کے ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرہ میں اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی نظر نہیں آتے۔ اس قوم کا کیا بنے گا؟ عقل حیران و پریشان ہے۔