داد بیداد۔۔ڈاکٹر محمد نصیر الدین مرحوم۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

خبر آئی کہ ڈاکٹر محمد نصیر الدین مدینہ منورہ میں وفات پاگئے اور جنت البقیع ان کی آخری آرام گاہ بنی تو ذہن کی سکرین پر اُن کی قابل رشک زندگی اور قابل رشک موت کے مناظر خیالی تصویر کی صورت میں نمودار ہونے لگے لمبا قد، دبلا پتلا جسم، چہرے پر سدا بہار مسکراہٹ اور بشاشت، گفتگو میں متانت اور چال ڈھال میں بے مثال شرافت کا نمونہ تھے سکول کی تعلیم میں میٹرک پاس کرکے دارالعلوم میں داخل ہوئے، مولانا ایوب جان بنوریؒ کے پسندیدہ شاگر د تھے دارالعلوم سرحد سے شہادۃ العالمیہ کی سند لیکر واپس انگریزی تعلیم کی طرف مائل ہوئے، گریجویشن کے بعد یونیورسٹی میں داخل ہوئے پہلے ایم اے اسلامیات کیا پھر عربی میں ایم اے کیا، اس کے بعدفن حدیث میں تخصص کے ساتھ پی ایچ ڈی کیا خیبر پختونخوا کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے معتبر اور بزرگ اساتذہ میں آپ کا شمار ہوتا تھامختلف بورڈوں اور یونیورسٹیوں کے ممتحن تھے ان کی دیانت داری، امانت داری، صداقت اور راستبازی ضرب المثل کا درجہ رکھنے والی صفات تھیں پروفیسر ڈاکٹر محمد نصیر الدین سابق ریاست کے مردم خیز گاؤں ورکپ تحصیل تورکھو میں 1947ء میں پیدا ہوئے کہا کرتے تھے کہ میری عمر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی پاکستان کی عمر ہوتی ہے ان کا کنبہ علمی گھرانوں میں شمار ہوتا تھا ان کے والد الحاج محمد قاضی دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور ریاست چترال میں عہدہ قضا پرفائز تھے چترال خاص کے مقام جنگ بازار میں شاہی قبرستان میں مدفون ہیں بڑے بھائی حاجی محمد عرفان الدین نے درس و تدریس میں عمر گذاری چھوٹے بھائی حاجی محمد ظہیر الدین بابر سول سروس میں گئے ”ہمہ خانہ آفتاب“ والا محاورہ اس گھرانے پر صادق آتا ہے اُن کے پڑدادا مُلا محمد دین خود عالم تھے اور دادا ملاّ برہان الدین بھی عالم دین تھے ڈاکٹر محمد نصیر الدین کی شادی ایون چترال کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی آپ کے سسر قاضی صاحب نظام کا شمار چترال کے ممتاز علماء میں ہوتا تھا سیاست میں بھی ان کا بلند مقام تھا پاکستان کے ساتھ سابق ریاست چترال کے الحاق اور انضمام کی تحریک میں انہوں نے مولانا نور شاہدینؒ کے شانہ بشانہ کام کیا ان کی بذلہ سنجی، ادب دوستی، ادب نوازی اور حاضر جوابی کے لطائف و ظرائف اب بھی زبان زدِ عام ہیں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جن احباب کی رفاقت و صحبت رہی وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ بیحد نفیس طبیعت اور حلیم مزاج کے مالک تھے کالج کی سطح پر سزا کا تصور ذرا کمزور سا ہے اس لئے طلباء سرکشی پر مائل ہوتے ہیں بالائی حکام کا رویہ عموماََ ناموافق ہوتا ہے آپ نے کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لایا ہشاش بشاش طبیعت کے باوجود آپکا علمی رعب و جلال ایسا تھا کہ طلباء آپ کے اشارے پر اپنی ”شرارتیں“ قربان کرتے تھے ڈائریکٹوریٹ سے آپ کو کبھی شکوہ نہیں رہا کیوں کہ ان کا ہر کام روٹین پر ہواروٹین سے ہٹ کر آپ نے کبھی کچھ نہیں مانگا کالج میں پرنسپلوں کے ساتھ کبھی ان بن نہیں ہوئی کیونکہ ڈیوٹی تدریس کی ہو، ہاسٹل وارڈن کی ہو یا کنٹرولر امتحانات کی ہو، آپ نے پرنسپل کو کچھ کہنے کا موقع نہیں دیااور یہ خوبیاں بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں کالج کی لائبریری، سٹاف روم اور غلام گردشوں میں سازشیں اور شرارتیں پروان چڑھا کرتی ہیں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، پروفیسر سید تقویم الحق کاکاخیل اور پروفیسر شمشیر نے ایسے بے شمار واقعات کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے پروفیسر اقبال پراچہ نے بھی اپنی تحریر وں میں ایسے واقعات سے پردہ اُٹھایا ہے مگر ڈاکٹر محمدنصیر الدین نے کبھی اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں ڈالاوہ ”غیبت کلب“ سے دور رہتے تھے، گپ شب کی مجلس میں کبھی نہیں بیٹھتے تھے البتہ راہ چلتے، آتے جاتے یا کسی دفتری میٹنگ میں ہلکی پھلکی نوک جھونک سے ضرور لطف اندوز ہوتے نفسیات کی زبان میں ایسی شخصیت کے لئے انٹر و ورٹ (Intro-vert) کی ترکیب استعمال ہوتی ہے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے حیات آباد میں گھر بسا لیا برادر نسبتی صالح نظام کو یہ بستی پسند ہے آپ کے ہم زُلف حاجی مسلم الحق بھی حیات آباد میں تا حیات آباد ہیں عرصہ ایک سال سے آپ کی طبیعت نا ساز تھی ہسپتال سے گھر آنے کے بعد بیماری میں کبھی افاقہ ہوتا کبھی بیماری عود کر آتی پروفیسر حسام الدین ان سے ملنے جاتے تو سارے احباب کا احوال پوچھتے ٹیلیفون پر ان کے ساتھ بات ہوتی تو دیر تک دوستوں کا ذکر کرتے 24 مارچ کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے حرمین شریفین کے سفر پر روانہ ہوئے اہلیہ اور منجھلے بیٹے محمد اطہر الدین کو ساتھ لیا ایک ہفتہ بعد مدینہ منورہ سے آپ کی وفات کی خبر آئی اپنی صداقت، دیانت اور شرافت کی وجہ سے بلا شبہ اس اعزاز کے مستحق تھے کہ جنت البقیع آپ کو اپنی آغوش میں لے لے چنانچہ ایسا ہی ہوا ”پہنچی وہیں یہ خاک جہاں کا خمیر تھا“ اللہ پاک مرحوم کے درجات کو بلند کرے اور پسماندگان کو صبرجمیل کے ساتھ ترقی، سرفرازی اور دین و دنیا کی کامیابیاں عطا فرمائے (آمین) آپ کا بڑا بیٹا میجر محمد مظہر الدین آرمی ایوی ایشن میں ہے منجھلا بیٹا محمد اطہر الدین، چھوٹا بیٹا محمد اظہر الدین دونوں ابھی تعلیم کے مراحل طے کررہے ہیں صاحبزادی بھی زیر تعلیم ہے پروفیسر ڈاکٹر محمد نصیر الدین اُن خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جن کی زندگی نیک نامی سے عبارت تھی اور جن کی موت بھی قابل رشک قرار پائی ؎
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کوویران کر گیا