داد بیداد۔۔سیاست میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

اخباری خبروں کا بین السطور بعض اوقات خبروں سے زیادہ تشویشناک ہوتا ہے وطن عزیز کے اندر جمہوریت، سیاست اور سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جوڑ توڑ کی طرح جاری رہتا ہے اورانتخابات قریب آتے ہی یہ عمل اپنی انتہائی حدوں کوچھولیتا ہے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے انجینئر امیر مقام کو آئندہ حکومت کیلئے صوبے کا وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کے بعد ہزارہ اور پشاور کے مسلم لیگی حلقوں کی طرف سے ہلکا پھلکاردعمل آیا ہے اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے انجینئر ہمایوں خان کوپارٹی کا صوبائی سربراہ مقرر کیا تو ہزارہ اور پشاور کی طرف سے منفی ردّعمل سامنے آیا پاکستان تحریک انصاف کے 9 اراکین اسمبلی نے سینیٹ کے انتخابات کے بعد پارٹی کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کر کے اپنا راستہ الگ کرنے کا عندیہ دیا ہے اس طرح متحدہ مجلس عمل بننے کے بعد مفتی کفایت اللہ اور دیگر علمائے کرام نے مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی کے خلاف زور دار تقریروں کا نیا سلسلہ شروع کر کے کارکنوں کو بد نظمی کا پیغام دیا ہے جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے اندر صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان کو سینیٹ میں کم ووٹ ملنے کے حوالے سے کافی حد تک تشویش پائی جاتی ہے یہ بات حیران کن تھی کہ جماعت اسلامی کے ووٹ کم تھے اس کا صوبائی امیر سینیٹر بن گیا جے یو آئی (ف) کے ووٹ زیادہ تھے اس کا امیر منتخب نہ ہوسکا عوامی نیشنل
پارٹی نے اگرچہ بیگم نسیم ولی خان کو منانے کے بعد پارٹی کے دونوں دھڑوں کو یکجا کیا ہے تاہم اسفند یار ولی خان کے ناقدین کی بڑی تعداد اب بھی پارٹی میں موجود ہے ملکی سیاست میں ٹوٹ پھوٹ کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی وجہ فرقہ واریت ہے فرقہ واریت کی وجہ سے قوم 13چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے ہر ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کے خلاف اعلان ِ جنگ پر تُلا ہوا ہے دوسری بڑی وجہ قوم پرستی اور اسی قوم پرستی کی بنیادپرسیاسی جماعتوں کی تقسیم ہے ہمارے صوبے میں ہزارہ گروپ ہر پارٹی کے اندر الگ اثر و رسوخ رکھتا ہے نوازشریف نے اپنے اقتدار کے دنوں میں فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کیلئے مشاورت شروع کی تو ہزارہ گروپ نے سرائیکی بیلٹ کو ساتھ ملا کر اس کی درپردہ مخالفت کی اس کی وجہ یہ تھی کہ فاٹا کے انضمام کے بعد صوبائی اسمبلی میں پشتو بولنے والوں کی اکثریت ہوگی اور وزیر اعلیٰ انہی میں سے ہوگاہزارہ اور سرائیکی خطہ محروم رہ جائیگا نواز شریف سرائیکی اور ہزارہ گروپ کے ہاتھوں یرغمال بن گئے اور فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ نہ کرسکے یہ قومیت کو پریشر گروپ کے طور پر استعمال کر نے کی تازہ ترین مثال ہے اس طرح ملاکنڈ ڈویژن کے پارلیمانی لیڈر کو قبول نہ کرنے کی کئی مثالیں ہیں پشاور کے ضمنی انتخابات میں حیات آباد،لنڈی ارباب اور ملحقہ آبادی کے ووٹروں نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو صرف اس بنیاد پرمسترد کردیا کہ مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا کریڈٹ امیر مقام کو جاتا تھااور مسلم لیگ (ن) کے جو اکابرین پشاور یاہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ امیر مقام کی پوزیشن کو کمزور کرنا چاہتے تھے یہ معاملہ پشاور میں ملاکنڈ کے دوسرے رہنما ہمایوں خان کے ساتھ بھی ہونے والا ہے کیونکہ پشاور، مردان، صوابی اور نوشہرہ کے لیڈروں کو ملاکنڈ سے آنے والی قیادت قبول کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں وہ ہر حال میں قیادت کو اپنا حق سمجھتے ہیں مقبول سیاسی جماعتوں کے اندر اس طرح کی توڑ پھوڑ کا فائدہ ہمیشہ تیسری قوت کو ہوتا ہے تیسری قوت کو آپ کوئی بھی نام دے سکتے ہیں آپ طاہر القادری کہہ دیں، خادم رضوی کہہ دیں، حافظ محمد سعید کہہ دیں، شیخ رشید کا نام لے لیں عمران خان نے حالیہ پالیسی بیان میں ایک مثبت پیش رفت دکھائی ہے انہوں نے پارٹی ٹکٹ کے لئے صادق اور امین کی شرط کو ختم کر دیا ہے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط کو ختم کر دیا ہے ان کی پہلی شرط یہ ہے کہ اُمیدوار پیسہ خرچ کرسکتا ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ ووٹ جیتنے کا تجربہ رکھتا ہو تیسری شرط یہ ہے کہ بڑی برادری والا ہو تاکہ ووٹ حاصل کرسکے پی ٹی آئی کے اس فارمولے میں پارٹی منشور،کرپشن کے خلاف جدوجہد اور صاف ستھرے ماضی کی کوئی شرط نہیں اس لئے تیسری قوت بننے کی دوڑ میں پی ٹی آئی بھی شامل ہوسکتی ہے سیاست میں ٹوٹ پھوٹ کا اگر کوئی فائدہ ہے تو پی ٹی آئی اس فائدے سے محروم نہیں ہوگی قوم پرستوں کے چھوٹے پریشر گروپ بنے ہوئے ہیں فرقہ ورانہ گروپوں کی طرح اُن کو بیرونی ممالک سے حمایت مل رہی ہے اور بقول شخصے یہ حمایت دامے، درمے اور سخنے مل رہی ہے اس لئے پریشر گروپوں میں کوئی ”مکتی باہنی“ آگے جاکر سیاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے
نیرنگی سیاست ِ دوران تو دیکھیئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے