گذشتہ ایک عشرے کے اند ر ملک میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ جس کا کریڈٹ وکلاء کو جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھر

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھر نے کہا ہے۔ کہ گذشتہ ایک عشرے کے اند ر ملک میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ جس کا کریڈٹ وکلاء کو جاتا ہے۔ کیونکہ اُن میں عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات نے انسانی حقوق کیلئے آاواز بلند کی اور مجبور و مظلوم لوگوں کی آواز بن گئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز ڈسٹرکٹ بار ایسو سی ایشن چترال میں ایک پُر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چترال احمد وقار، ڈی پی او چترال منصور آمان اور وکلاء کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ انہوں نے کہا، کہ عدلیہ، انتظامیہ اور بار مشترکہ سوچ اور باہمی تعاون کے ذریعے چترال کے مسائل حل کرکے ترقی کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ تینوں اداروں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انتظامیہ کیلئے بار ایک کندھے کا کام دیتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا۔ کہ غریبوں کے حقوق کی حفاظت بار کی ذمہ داری ہے، چترال جیسے پُر امن معاشرے میں معمولی نوعیت کے تنازعات کو ہوا دے کر طول دینے کی بجائے اُنہیں صلح صفائی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم چترال کے گورننس سسٹم میں بہتری لانے کی کو شش کررہے ہیں۔ اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے آسانیاں پیدا کرنے کی غرض سے آن لائن شکایات سیل قائم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام سے قریبی رابطہ رکھتے ہوئے کھلی کچہریوں کا انعقاد شروع کیا ہے۔ اس سے مجبور لوگوں کے مسائل سننے اور مقامی سطح پر اُن کے حل میں مدد ملی ہے ۔ انہوں نے کہا۔ کہ چترال شہر کی تزین و آرائش کیلئے 36کروڑ روپے کے فنڈ آچکے ہیں۔ اور ہم چاہتے ہیں۔ کہ امن کے ماحول کے ساتھ مقامی لوگوں اور سیاحوں کیلئے حقیقی معنوں میں اسے ایک آئیڈئیل شہر بنائیں۔ صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن چترال ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کی طرف سے چترال کیلئے کئے جانے والے اقدامات کی تعریف کی۔ اور کہا، کہ کُھلی کچہریوں کے انعقا د سے فوری ریلیف کی سہولت ، کمپلینٹ سیل کا قیام، ٹورسٹ فسلٹیشن سنٹر کی تعمیر، ویمن اینڈ چلڈرن فسیلیٹیشن سنٹرکا قیام علاقے کے مفاد کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل کام ہیں۔ جو کہ دونوں آفیسران نے مختصر عرصے میں انجام دی ہیں۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ بار روم میں پڑے ریکارڈ کو محفوظ طریقے سے دوسری جگہ منتقل کرنے اور کورٹ روم کے قیام کا مطالبہ کیا۔ جس پر ڈپٹی کمشنر نے ایک ہفتے کے اندر عملدر آمد کی یقین دھانی کی۔ تاہم سیکرٹریٹ روڈ کو وکلاء کیلئے پارکنگ قرار دینے کے حوالے سے ڈی پی او نے کہا۔ کہ چترال میں تنگ سڑکیں ہیں، جہاں گاڑیاں کھڑی کرنے سے آمدورفت متاثر ہوتی ہے۔ اس حوالے ایک جامع ٹریفک پلان تیار کیا گیا ہے۔ انشا ء اللہ اُس پر عنقریب عمل کیا جائے گا۔ اور پارکنگ کے مسائل حل ہوں گے۔ اس سلسلے میں پولیس کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈی پی او نے کہا۔ کہ چترال ایک کرائم فری ضلع ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے۔ کہ اس امن کے قیام میں پولیس کا بہت بڑاا کردار ہے۔ بلکہ یہ اس علاقے کے اقدار کی پختگی، جرائم سے نفرت اور امن سے محبت کی علامت ہے۔ جس کی اس ضلع کے اسلاف نے پشت در پشت آبیاری کی۔ اور یہی اس علاقے کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ تاہم یہ افسوس کا مقام ہے۔ کہ اس علاقے میں خود کُشی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اور اسی بنا پر ہم نے خواتین کیلئے ایک کھلی کچہری منعقد کی۔ جس میں بہت سے مسائل سامنے آئے ہیں۔ جن کے حل کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چترال نے اپنے خطاب میں کہا۔ کہ مجھے خوشی ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے کام سے عوام مطمئن اور خوش ہیں۔ انہوں نے کہ انصاف میں بہتری اُس وقت آتی ہے۔ جب انصاف کمیونٹی میں موجود ہو۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او چترال کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ چترال میں بڑے تنازعات زمینات کے ہیں۔اور یہ لینڈ سٹلمنٹ کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ لینڈ سٹلمنٹ جہاں بھی ہوئے وہاں مسائل ختم ہونے کی بجائے بڑھ گئے ہیں۔ اور چترال کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ تقریب سے عبدالولی ایڈوکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے چترال میں ریور بیڈ کے حوالے سے اُٹھنے والے تنازعات کے بارے میں کہا۔ کہ تعریف کے مطابق ریور بیڈ دریاء کے نارمل بہاؤ کے نیچے زمین کو کہا جاتا ہے۔ لیکن چترال میں لوگوں کے سیلاب سے متاثرہ زمینات کو بھی ریور بیڈ قرار دے کر سٹیٹ پراپرٹی کے طور پر تحویل میں لیا جاتا ہے۔ جس سے بہت زیادہ مسائل جنم لے چکے ہیں۔ ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ تقریب کے اختتام پر جاوید علی خان ایڈوکیٹ نے مطالبہ کیا ۔ کہ چترال کے ریکارڈ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ جو کہ مستقبل میں ریسرچ اور تھیسز کیلئے کام آئیں گے۔ اس لئے اُنہیں جدید تقاضوں کے مطابق اُن کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر محفوظ کیا جائے۔ جس پر ڈپٹی کمشنر نے جاوید علی خان کے مشورے سے اتفاق کیا۔ قبل ازین جب تقریب شروع ہوئی۔ تو ملک کی معروف قانون دان، ہیومن رائٹس ایکٹی وسٹ محترمہ عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ اور اُنہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔