پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا پاکستانی اقدام دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش ہے؛ افغان حکام روڑے اٹکانے پر بضد

Print Friendly, PDF & Email

چترال(نمائندہ چترال میل) دہشت گردی کے واقعات اور سرحدوں پر چوری چھپے نقل و حرکت کو روکنے کی غرض سے پاکستان نے ”بارڈر منیجمنٹ“ پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت پاک افغان سرحد پر باڑ لگا کر اسے محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ قانونی نقل و حمل کے لئے متعین شدہ راہداریوں کے استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں 2600کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے تاہم حسب روایت افغان حکام اس اہم کام میں روڑے اٹکانے کی روش پر کارفرما ہیں۔ اسی روش کی وجہ سے طورخم سرحد پر گیٹ کی تعمیر کے وقت افغان فورسز نے بلا اشتعال فائرنگ کرکے پاکستانی حکومت کی کوششوں کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی اور اس واقعے میں پاک فوج کا ایک میجر بھی شہید ہوا مگر پاکستانی سیکورٹی اداروں کی موثر جوابی کاروائی کی وجہ سے افغان حکام پسپا ہوئے۔ اسی طرح گذشتہ سال مردم شماری کے موقع پر بھی افغان سرحدی افواج نے چمن کے قریب سرحدی گاؤں میں اشتعال انگیزی کی تھی اور اس پر بھی انہیں سخت جواب ملا تھا۔ اب حالیہ بار اطلاعات کے مطابق افغان حکام سرحد پر باڑ لگانے کے پاکستانی کوششوں میں رخنہ ڈالنے کے درپے ہیں۔ ضلع چترال میں پاک افغان سرحد ی قصبے ”ارندو“ میں سرحد پر باڑ لگانے کے تمام ترانتظامات کئی مہینے پہلے مکمل کئے جاچکے تھے تاہم افغان حکام کی طرف سے بار بار مداخلت کی وجہ سے پاکستانی حکام نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں بات چیت کو اولیت دی تاکہ باہم گفت و شنید سے یہ مسئلہ حل ہو سکے مگرافغان حکام بھارت اور امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے پاکستان کے تحمل کو کمزوری سمجھنے میں مصروف ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چند روز قبل ارندو کے مقام پر ایک ”فلیگ میٹنگ“ منعقد ہوئی جس میں پاکستانی وفد کی قیادت لیفٹیننٹ کرنل فیصل نے جبکہ افغان وفد کی قیادت کرنل حیات اللہ حیدری نے کی۔ اس موقع پر پاکستانی حکام کی طرف سے افغان حکام کو واضح اور دو ٹوک انداز میں بتایا گیا ہے کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے اور غیر قانونی نقل وحمل کو روکنے کے حوالے سے پاکستان کا عزم مصمم ہے اور ہر حال میں بارڈر کے آرپار غیر قانونی نقل وحرکت کو روکا جائیگا تاہم قانونی طور سرحد کے آر پار جانے کے لئے متعین شدہ راستے استعمال ہونگے۔ اس حوالے سے افغان حکام پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی افواج اور سیکورٹی ادارے سرزمین پاک کے چپے چپے کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور حکومتی فیصلے کے مطابق بہتربارڈر منیجمنٹ کے لئے سرحد پر ہر حال میں باڑ لگائے جائینگے۔ تاہم افغان حکام اپنی ضد پر اڑے ہوئے۔ اس حوالے سے ارندو کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال کے پیش نظر علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے اور ارندوکے عوام ہرحال میں باڑ لگانے کے حکومتی فیصلے کیساتھ بھرپور اتفاق کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ارندو سے تحریک انصاف کے راہنماء اور ممبر تحصیل کونسل حاجی سلطان نے چترال پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ارندو کے حالات اچھے نہیں ہیں کیونکہ افغان فورسز کی جاہلیت کی وجہ سے علاقے میں تصاد م ہو سکتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ افغان حکام اپنی مسلسل ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے پاکستان پر الزامات لگاتے نہیں تھکتے مگر جب پاکستان سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل کو بند کرنے کی بات کرتا ہے تو یہی افغانی بدک جاتے ہیں اور سیکورٹی کو بہتر بنانے کے اقدامات کو ناکام بنانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کیلئے جہاں ”را“ کا پیسہ استعمال ہوتا ہے وہیں ”افغانستان“ کی سرزمین استعمال ہوتی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخلے کو روکنے کے لئے پاکستانی حکام نے سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر چونکہ افغان سرزمین سے تربیت یافتہ دہشت گرد چوری چھپے راستوں سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوششیں کرتے ہیں اور یہاں آکر دہشت گردی کرتے ہیں لہذا افغان خفیہ اداروں اور ان کے سرمایہ کاروں کی کوشش ہے کہ وہ سرحد پر باڑ لگانے کی پاکستانی اقدامات کو ناکام بنائیں تاکہ انکے مقاصد حاصل ہو سکیں۔ سرحد پر باڑ لگانے سے انکے چوری چھپے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کا مواقع ختم ہو جائینگے۔یاد رہے کہ 2600کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے اس اہم منصوبے پر ایک اندازے کے مطابق 532ملین ڈالرلاگت آئے گی اور یہ عمل دسمبر 2018تک مکمل کر لیا جائے گا جسکے بعد پاک افغان سرحد کا چپہ چپہ بارڈر منیجمنٹ مکینزم کے تحت سیکورٹی اداروں کے کنڑول میں آئیگا۔