آل پارٹیز چترال کے قائدین نے چترال کی ایک صوبائی سیٹ کے خاتمے کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار، اور 2018الیکشن کا بائیکاٹ

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) آل پارٹیز چترال کے قائدین نے چترال کی ایک صوبائی سیٹ کے خاتمے کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور حکومت کو خبردار کیا ہے۔ کہ سیٹ کی بحالی نہ ہونے کی صورت میں الیکشن 2018کے بائیکاٹ،موجودہ ضلعی حکومت اور صوبائی و قومی نشستوں سے متفقہ طور پر مستعفی ہونے پر غور کیا جائے گا۔ چترال کے ایک مقامی ہوٹل میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عبداللطیف کی طرف سے بلائے گئے ایک ہنگامی اور غیر معمولی اجلاس میں تمام پارٹیوں کے قائدین نے شرکت کی۔ جس میں متفقہ طور پر چترال کی ایک سیٹ کے خاتمے کو انتہائی ظالمانہ اقدام اور چترال کو مزید پسماندہ رکھنے کی ایک سازش قرار دیا گیا۔ اجلاس میں چترال کے مردم شماری نتائج کو بالکل مسترد کرتے ہوئے کہاگیا۔ کہ چترال کی نصف آبادی سیزنل روزگار، تعلیم اور ملازمت کیلئے باہر رہتی ہے۔ اس لئے گھر سے غیر حاضر افراد کو مردم شماری میں شامل نہ کرنے سے چترال کو شدید طور پر نقصان پہنچا ہے۔ اور اُس کے نتیجے میں چترال اپنی ایک صوبائی سیٹ سے محروم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ چترال پہلے سے ہی وسیع رقبے اور قلیل ترقیاتی فنڈ کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ لوگوں کو آمدورفت کیلئے سڑکیں، پینے کیلئے صاف پانی، تعلیم و صحت، بجلی اور دیگر سہولیات دستیاب نہیں۔ اب ایک سیٹ کے اضافے کی بجائے پہلے سے موجود سیٹ کو ختم کرنے سے ناقابل یقین حد تک مصائب و مشکلات سے دوچار ہو جائے گا۔ اور یہ پوری چترالی قوم کو کسی صورت قبول نہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ سیٹ کا خاتمہ چترال کیلئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ اور اس کی بحالی کیلئے ہر قسم کا اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔ شرکاء نے کہا۔ کہ جس الیکشن سے قوم کے سیاسی اور ترقی کے مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔ اُس الیکشن میں حصہ لینے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس لئے الیکشن آفس چترال کی موجودگی بھی بے معنی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ اس حوالے سے چترالی قوم کو متحرک کیا جائے گا۔ اور اصل صورت حال اُن کے سامنے رکھی جائے گی۔ اور قوم کے تعاون سے ضلع بھر میں بھر پور احتجاج کیا جائے گا۔ اجلاس میں اس امر کا اظہار کیا گیا۔ کہ آئین و قانون عوام کے بہتر مفاد کیلئے بنتے ہیں۔ اور پاکستان میں یہ مثال موجود ہیں۔ کہ جس قوم نے اپنے حقوق کیلئے متفقہ طور پر جدوجہد کی تو حکومت آئین و قانون تبدیل کرنے پر مجبور ہوئی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ کہ چترال کی جغرافیائی اہمیت، اسکی پسماندگی، وسیع رقبے کی وجہ سے پیش آنے والے انتظامی مسائل، کم فنڈ کی فراہمی اور مردم شماری میں گھر سے غیر حاضر افراد کی اندراج نہ کرنے جیسے نکات کو الیکشن کمیشن اور حکومت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اور فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی جائے گی۔ جو بار آور ثابت نہ ہونے کی صورت میں احتجاج اور انتخابی بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے عبداللطیف، حاجی سلطان، آفتاب محمد طاہر، جماعت اسلامی کے امیر مولانا جمشید احمد، جمیعت العلماء اسلام کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالشکور، مولانا حسین احمد، پاکستان مسلم لیگ کے صدر سیداحمد خان، عوامی نیشنل پارٹی کے صدر عیدالحسین،، نائب صدر شیر آغا، جنرل سیکرٹری میر عبادالرحمن، پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری محمد حکیم ایڈوکیٹ، انجینئر فضل ربی، قاضی فیصل، ڈسٹرکٹ بار کے صدر ساجداللہ ایڈوکیٹ، صدر پریس کلب ظہیر الدین موجود تھے۔