صدا بصحرا۔۔مسجد کا امام اور خادم۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے صوبے کی تمام مساجد کے ائمہ کیلئے 10 ہزار ماہانہ اعزازیہ مقر ر کرنے کا اعلان کیا ہے سرکاری کاغذات میں اس کا نام کیا ہوگا؟سر دست معلوم نہیں اسکو تنخواہ (Salary) تو نہیں کہا جائے گا وظیفہ (Stipend) یا اعزاز یہ (Honouraria) کہا جائے گا اس کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟اس کے بارے میں بھی علم نہیں مسجدوں اور اماموں کی فہرستیں کس طریقے سے مرتب ہونگی اس کا بھی علم نہیں ہے مناسب بات یہ ہے کہ اس کانام اعزازیہ (Honouraria) رکھا جائے اور یہ کام محکمہ اوقاف کو دینے کی جگہ محکمہ بلدیات کے سپرد کیا جائے ویلیج کونسل اور نائبر ہُڈ کونسل کے ذریعے آئمہ کرام کو اعزازیہ ادا کیا جائے تاکہ نظام میں شفافیت ہو اور علمائے کرام کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اس سلسلے میں محکمہ اوقاف کاریکارڈ بہت خراب ہے محکمہ اوقاف کے پاس مساجد کی تعداد بہت کم ہے صرف وہ مساجد اوقاف کے پاس ہیں جنکی ماہانہ آمدنی اُن کے ماہانہ اخراجات سے کافی زیادہ ہے بعض مساجد ایسے ہیں جنکی آمدنی اخراجات سے دگنی ہے اگر محکمہ اوقاف کو ان مساجد سے 2کروڑ روپے کی ماہانہ آمدنی آتی ہے تو مساجد پر ہرماہ بمشکل ایک کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے اس کے باوجود محکمہ اوقاف آئمہ اور خدام کو تین ماہ،چار ماہ تک تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کرتا یہ لوگ دفتروں کا چکر لگا کر تھک جاتے ہیں تو تنخواہ اس طرح ادا کردی جاتی ہے جیسے کوئی بخیل شخص ہزار احسان جتاکر کسی کو بھیک دیتا ہو محکمہ اوقاف کا کلچر ایسا ہے کہ اس کا کوئی افیسر یا اہلکار امام اور خادم کو عزت وا حترام کے لائق نہیں سمجھتا مسجد کے خاد م کو گھریلو نوکر سے بھی کم تر درجہ دیا جاتاہے حالانکہ وہ مدرسے کا فارغ التحصیل عالم،قاری،حافظ اور مجودّہوتا ہے امام کی غیر موجودگی میں پنجگانہ نماز پڑھاتا ہے اذان اور تکبیر اس کی ذمہ داری میں شامل ہے مسجد کی دیکھ بھال آب گاہوں کے انتظام اور غسلخانوں کی صفائی تک اُس کے کاموں میں شامل ہیں خطیب کی غیر موجودگی میں نماز جمعہ بھی خادم ہی پڑھاتا ہے مگر محکمہ اوقاف کی کتابوں میں خادم کے علم کااُ س کی ذمہ داریوں سے تعلق نہیں جوڑا گیا محکمہ اوقاف کے پاس عید گاہ اور قبرستانوں کی صفائی کیلئے الگ فنڈ ہوتا ہے اس کا مستقل مد اور مصرف ہے لیکن اوقاف والے مسجدوں کے خدام کو عید گاہ اور قبرستانوں کی صفائی پر لگاتے ہیں علمائے دین کے ہاتھ میں جھاڑو دیکر صفائی کراتے ہیں مخصوص فنڈ سے ان کو چائے بھی نہیں پلاتے میں نے کل جس مولوی کے پیچھے 2 خفی اور 3 جہری نمازیں پڑھی تھیں آج اس کو دیکھتا ہوں تو جھاڑو،بیلچہ اور ریڑھی لیکر قبر ستان کی صفائی پر لگا ہوا ہے اوقاف کا اہلکار اُس سے کام بھی لیتا ہے بر ا بھلا بھی کہتا ہے قبرستان کی صفائی سے واپس آنے والے علماء سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ سب مدرسوں کے فارغ التحصیل ہیں محکمہ اوقاف کی ملازمت بھی پکی ہے پنشن کے حقدار ہیں مگر ان کو سال میں ایک دن بھی چھٹی نہیں ملتی مہینہ گذر جائے تو تنخواہ نہیں ملتی یہ لوگ یکم تاریخ کی تنخواہوں سے بے خبر ہیں کبھی 3 ماہ بعد تنخواہ آتی ہے کبھی چار ماہ بعد تنخواہ آتی ہے اگر مسجد کے خادم کے گھر میں بیماری یا فوتیدگی ہو چھٹی کی ضرورت پڑے تو اُس کو کہا جاتا ہے کہ کسی مولوی کو یومیہ اجرت دے کر اپنی جگہ بیٹھاؤ یہ لوگ یومیہ اجرت پر دوسرا مولوی اپنی جگہ بٹھاکر چھٹی لے لیتے ہیں اور آدھی تنخواہ یا پوری تنخواہ اجرت میں دیدیتے ہیں گویا ان کو پکی نوکری کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ائمہ مساجد کو ماہانہ 10 ہزار روپے اعزازیہ دیناپی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کا تاریخی اقدام ہے اسلام کے ساتھ محبت رکھنے اور علماء کے ساتھ عقیدت رکھنے والے عوام اس اقدام کا خیر مقدم کرینگے مگر اس کی ا دائیگی کا طریقہ کار بہتر ہونا چاہئے جب علماء دیکھتے ہیں کہ محکمہ اوقاف کے افیسروں اور اہلکار وں کی نظر میں علماء کی کوئی قدر نہیں خادم،مو ذن،مکبّر اور امام کی کوئی قدر نہیں تو وہ لا محالہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبے کے اندر ائمہ کرام کو ماہانہ 10 ہزار روپے اعزازیہ دینے کا کام محکمہ اوقاف کے ہاتھوں میں نہ دیا جائے اگر یہ کام محکمہ اوقاف کو دیا گیا تو اس میں کرپشن ہوگی اور علمائے کرام کی عزت نفس بُری طرح مجروح ہوگی محکمہ بلدیات کا سسٹم بہتر ہے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن علماء کی قدر کرتی ہے علماء اور ائمہ مساجد کو عزت کا مقام دیتی ہے افیسروں کی اچھی تر بیت ہوئی ہے منتخب لوگ علماء کی قدر کرنا اپنے لئے باعث عزت اور ثواب سمجھتے ہیں اس لئے نیا کام محکمہ بلدیات کے حوالے کیا جائے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ محکمہ اوقاف کی مساجد میں خدام اور ایئمہ کی تنخواہوں کی ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر اور خدام سے صفائی کے عملے کا کام لینے کی باقاعدہ انکوائری کرائی جائے اگر اس میگا کرپشن کی انکوائری نہیں کرائی گئی تو یہ ”چراغ تلے اندھیرا“کے مترادف سمجھا جائے گا۔