داد بیداد۔۔ضلع مستوج کی بحالی۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

خیبر پختونخوا کی حکومت نے اُصولی طور پر صوبے میں اپر کوہستان کی طرح مز ید تین اضلاع بنا نے کا فیصلہ کیا ہے یہ فیصلہ انتظامی معاملات میں آسانی اور دہشت گردی پر قابو پانے کے عمل کو پائید ار خطوط پر استوار کر نے کے لئے کیا گیا جو نئے اضلاع زیر تجویز ہیں ان میں ڈی آئی خان، سوات اور چترال میں نئے اضلاع شامل ہیں مگر تکنیکی اور فنی طور پر چترال کا ضلع نیا نہیں ہوگا بلکہ چترال کا پرانا ضلع مستوج بحال ہو جائے گا اس کو مئی 1969 ؁ء میں ریاست کے انضمام کے وقت سب دویژن کا درجہ دے کر تنزل کا شکار کیا گیا تھا یہ بھی چترل کی طرح خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہوگا جس کا رقبہ 8600 مربع کلومیٹر ہے پاکستان کو واخان کی پٹی کے ذریعے افغانستان، تاجکستان اور سنکیا نگ سے ملانے والی سرحد بروغیل(14800 فٹ) یہاں واقع ہے کے ٹو کے بعد پاکستان کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی تریچمیر 25800)فٹ)یہاں واقع ہیں اس علاقے میں 6000 میٹر سے زیادہ بلند ی پر واقع پہاڑی چوٹیوں کی تعدا د 75 ہے دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ شندور (12325 فٹ) بھی اس ضلع میں واقع ہے آبی ذخائر کے 65 بڑے گلیشیر اور 8 قدرتی جھیلیں اس ضلع میں واقع ہیں چترال کا مشہور سیب بھی یہاں پیدا ہوتا ہے گلگت، کشمیر، افغانستان،روس اور چین کی سرحد وں کے ساتھ ملحق ہونے کی وجہ سے زمانہ قدیم سے مستوج کے علاقے کو اہمیت حاصل رہی ہے تو ر کہو، موڑکہو اور بیار پر مشتمل یہ علاقہ ریاستی دور میں تین پر گنوں میں تقسیم تھا ہر ایک پر گنہ الگ انتظامی سر براہ کے ماتحت ہو تا تھا اس کو رئیس دور میں سیق متیار (چھوٹا نواب) کہا جاتا تھا کٹور دور میں بھی سیق میتار کی ترکیب استعمال ہوتی رہی انگریز وں کے آنے کے بعد اس کو گورنر کا نام دیا گیا 1341ء میں شاہ نادر رئیس نے مستوج کے ساتھ گلگت کے علاقہ گوپس پو نیال، ورشگوم اور اشکومن کو ملا کر چترال کی سرحدوں کو گلگت تک توسیع دی ان علاقوں میں ایک ہی زبان کھوار بولی جاتی ہے 1590ء میں کٹور خاندان کی حکومت آئی تو رئیسہ عہد کے علاقے کٹور کے قبضہ میں آگئے، کٹور نے اپنے بھائی شاہ خوشوقت کو شندور کے اُس پار گو پس، ورشگوم، پونیال اور اشکومن کا حکمران مقر ر کیا اکثرادوار میں یہ علاقہ مستوج کے حکمران کی عملداری میں رہے تاہم خوش وقت خاندان کے شاہ فر امرد، ملک امان اول، شاہ خیر اللہ اور سلیمان شاہ نے ورشگوم کے پایہ تخت سے چترال پر بھی حکومت کی گو ہرا مان اور میر ولی کا بھی چترال پر اثر ونفوذ رہا مستوج کا پر گنہ قدیم دور کی جنگوں میں اہم علاقہ شمار کیا جاتا تھا بونی، اُور مو، گشٹ اور دار بند کی جنگوں کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے 1885؁ء میں اما ن الملک کے ساتھ دوستی کے معا ہد ے کے بعد انگریزوں نے مستوج میں اپنا ریذیڈنٹ رکھا پہلے ریذیڈنٹ کا نام ینگ ہسبنڈ تھا جو بعداز ان چینی ترکستان میں برٹش انڈیا کا نما ئیند ہ بن کر گیا 1895؁ء میں انگریز وں نے چترال میں اپنا اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ لانے کے بعد شندور کے اُس پار غذر، گوپس،ورشگوم اور پونیال سے مہتر چترال کے مقرر کر دہ عہد ید اروں کو معزول کر کے اپنے عہد یدار مقر ر کئے اور شندور لنگر کو مستقل بونڈری بنا کر دونوں علاقوں کو الگ کردیا قیام پاکستان کے بعد 1953 ؁ء میں عبوری دستور کے تحت نیا انتظامی ڈھا نچہ تشکیل دیکر گورنر، حاکم اور چار ویلو کی جگہ ڈپٹی کمشنر، تحصیلدار اور ایس ایچ او مقر ر کئے گئے تو چترال کی ریاست کے دواضلاع بنا ئے گئے ضلع چترال اور ضلع مستوج دونوں 1953 ؁ ء میں قائم ہوئے شہزادہ اسد الرحمن، ظفر احمد خان،شہزادہ شہاب الدین، شہزادہ محی الدین اور معراج الدین یکے بعد دیگر نے مستوج کے ڈپٹی کمشنر مقر ر ہوئے علاقے کے سیاسی اور سماجی لیڈروں میں محمد غفارخان،سردارامان شاہ اور صاحب نگین کے نام قابل ذکر ہیں مئی 1969 ؁ء میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے سا بق ریاستوں کو ختم کر دیا تو چترال کو ملاکنڈ کا ضلع بنا یا گیا اُس وقت ضلع مستوج کو ختم کر کے سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا اُس وقت سے اب تک م عوام مسلسل ضلع مستوج کی بحالی کا مطالبہ کر تے آئے تھے اگر پاکستان تحریک انصاف نے ضلع مستوج کو بحال کر دیا تو یہ تاریخی کار نامہ ہوگا اور علاقے کی ترقی کا پیش خیمہ ہوگا کم از کم 8 ہزار ملازمتیں آئینگی اور سالانہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں چھ ارب روپے ملینگے نیز این جی اوز کا نیا نیٹ ورک آجائیگا اسکا کریڈٹ یقینا موجودہ حکومت کو جائیگا