چترال کی سیاسی ڈائری؎۔۔تحریر: فخر عالم

Print Friendly, PDF & Email

اب جبکہ عام انتخابات میں تقریباً مہینے رہ گئے ہیں، چترال میں سیاسی سرگرمیاں زور پکڑ لی ہیں اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب ایک پارٹی کا کوئی سرکردہ لیڈر ناراض ہوکر دوسری جماعت میں شامل ہونے کی خبر نہ ملے جبکہ گزشتہ ایک ماہ کے اندر ایک جماعت کی مرکزی قیادت نے بھی دروش میں اپنی سیاسی قوت کا بھر پور مظاہرہ کیا جسے شمولیتی جلسہ عام کا نام دیا گیا تھا۔ اسی طرح کی شمولیتی جلسے مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے منعقد ہونا معمول بن گیا ہے جن میں پی پی پی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام شامل ہیں جبکہ اب تک ضلعے میں غیر مقبول جماعت اے این پی بھی اس دوڑ میں برابر کے شریک ہے جس نے کئی سیاسی جماعتوں کے وکٹ لینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ دو ماہ قبل پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹوزرداری کے چترال آمد کے بعد سے سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے جس میں پی پی پی کی ضلعی قیادت اپنے پارٹی قائد کے دورے کے ثمرات کو سمیٹنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے اور اب تک دو اہم شخصیات کو اپنی جھولی میں گرانے میں کامیابی حاصل کی ہے جن میں جے یو آئی کے قائد اور مسلسل دو دفعہ ایم پی اے منتخب ہونے والے حاجی غلام محمد اور جماعت اسلامی کا انجینئر فضل ربی شامل ہیں جوکہ دونوں اپنی اپنی جماعتوں میں game مانے جاتے تھے۔ پارٹی کے اندرونی اور معتبر ذرائع کے مطابق حاجی غلام محمد کو صوبائی کے اپر چترال سے حلقہ پی کے 90اور انجینئر فضل ربی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جارہا ہے۔ پارٹی کے صدر سلیم خان ان حالات میں پارٹی کے اندر کارکنوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے اور تنظیمی امور کو مضبوط بنانے میں دن رات مصروف نظر آرہے ہیں اور صوبائی اسمبلی کی جاری اجلاسوں میں بھی شریک نہ ہوئے۔ پی پی پی میں دھڑا بندیاں ابھی تک دم نہیں توڑ دئیے ہیں اور سلیم خان کو کئی بااثر افراد کی مخالفت کا سامنا ہے جبکہ بیگم شہزادہ سلیمان بھی دوبارہ سرگرم عمل نظرآرہی ہیں جوکہ بلاول بھٹو کے دورہ چترال کے دوران سایہ کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہے اور پارٹی کے اندرونی حلقوں کے مطابق انہوں نے پارٹی کی مرکزی قیادت سے اپنی ایک بیٹی کو قومی اسمبلی کی ٹکٹ دلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس صورت میں سلیم خان کے لئے گھمبیر مسائل پید ا ہوسکتے ہیں۔ اس صورت حال کافائدہ پہلے کی طرح مخالفین کو پہنچے گا جب پارٹی کے اندر دراڑ کی وجہ سے اپنی عددی اکثریت کے باوجود پارٹی کے امیدواروں کو معمولی تعداد میں ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی تھی۔ ادھر گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ایک دوسرے کے مضبوط حلیف اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں اقتدار میں شریک دینی جماعتیں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے درمیاں ضلع چترال کی سطح پر اتحاد کی خبریں بھی گرم ہیں جس میں سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ضلع ناظم مغفرت شاہ دن رات کوششوں میں مصروف بتائے جاتے ہیں جسے جماعت اسلامی نے صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 89چترال ون کے لئے ابھی سے نامزد کیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کی صوبائی قیادت نے اپنے اپنے ضلعی نظموں کو ضلعی سطح پر اتحاد کے لئے گرین سگنل دے دیا ہے اور جے یو آئی کے اندر جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کی مخالف قوتیں پارٹی کے اندر ہی سائیڈ لائن بتائے جاتے ہیں جن میں تحصیل چترال کے امیر مولانا محمد الیاس نے اپنی کابینہ سمیت گزشتہ دنوں استعفی دے کر ضلعی امیر قاری عبدالرحمن قریشی پر دباؤڈالنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی دباؤ قبول کرنے کی بجائے ان استعفوں کو فوری طور پر قبول کرتے ہوئے نئی انتخابات کے لئے تاریخ بھی مقرر کردی جبکہ اس سے قبل اتحاد مخالف رہنماؤں نے ضلعی امیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی لانے کی کوشش کی جوکہ ناکامی سے دوچار ہوئی۔ یہ بات اظہر من الشمس حقیقت اور نویشتہ دیوار ہے کہ دینی جماعتوں کی اتحاد کی صورت میں اس کی کامیابی سوفیصد یقینی ہے اور اس اتحاد نے دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر کئی دھڑے موجود ہیں اور عبداللطیف کی صدارت پر سب مجتمع نظر نہیں بتائے جاتے ہیں۔ ضلع چترال سے صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں کے ٹکٹوں کا فیصلہ ابھی سے مرکزی قیادت کی طرف سے الاٹ کرنے کی خبر سے کارکنوں میں جوش وجذبے کی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس سال جولائی میں قائد پی ٹی آئی عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے دورہ چترال کے موقع پر سابق تحصیل ناظم اور پولو کے معروف کھلاڑی شہزادہ سکندرالملک نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ گزشتہ ہفتے شاہی خاندان کا ایک اور سپوت شہزادہ امان الرحمن نے بھی بنی گالہ جاکر عمران خان کے ہاتھوں پر پارٹی میں شامل ہوگئے اور انہیں لویر چترال کی صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ دینے کا وعدہ جبکہ شہزادہ سکندر کو اپر چترال سے امیدوار بنانے کا عندیہ پہلے ہی عمران خان نے دے دیا ہے اور ان ہی کوششوں سے اپر چترال کو الگ ضلعے حیثیت دینے کا اعلان کیا جارہاہے تاکہ اپر چترال(سب ڈویژن مستوج) کے عوام اس خوشی میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیں۔ ضلعے سے قومی اسمبلی کی واحد نشست کے لئے عبداللطیف اور ایم پی اے بی بی فوزیہ کا نام لئے جارہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دنوں کسی دوسری جماعتوں سے پی ٹی آئی شمولیت کے حوالے سے خبریں بہت کم سننے میں آرہی ہیں حالانکہ صوبے میں حزب اقتدار جماعت کو اس سلسلے میں ٹاپ پر ہونی چاہئے تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہونے والے شہزادہ افتخارالدین ابھی تک سب سے ذیادہ پوٹنشل رکھنے والے امیدوار مانا جاتا ہے جس نے اپنے چھوٹے بھائی شہزادہ خالد پرویز غیر اغلانیہ طور پر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزادہ خالد پرویز گزشتہ عام انتخابات میں محض ایک ہزار ووٹوں کے فرق سے سلیم خان سے ہار گئے تھے اور سیاسی جوڑ توڑ میں مغفرت شاہ سے بھی دو قدم آگے مانا جانا ہے۔ لواری ٹنل پراجیکٹ اور گولین گول ہائیڈل پاؤر پراجیکٹ پر کام میں تیزی لانے کے لئے نواز شریف کا قربت حاصل کرنے کی وجہ سے عوام میں مقبولیت حاصل کی ہے جبکہ انہوں نے اس تعلق کو استعمال کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ضلعے میں تین سڑکوں (چترال شندور، چترال گرم چشمہ، کالاش ویلی) کے لئے مجموعی طور پر بیس ارب سے ذیادہ منظور کرائے جبکہ یونیورسل سروسز فنڈز کے ذریعے ٹیلی نار کی کوریج ضلعے کے کونے کونے تک پہنچادیا۔ پانچ مرتبہ چترال سے ایم این اے دو مرتبہ چیرمین ضلع کونسل اور ایک مرتبہ ضلع ناظم منتخب ہونے والے شہزادہ محی الدین کا بیٹا ہونے کا فائدہ بھی انہیں حاصل ہے جس کے ہزاروں حامی ہر گاؤں میں موجود ہیں جوان کے بیلٹ بکس کو بھرکر انہیں اسمبلی تک پہنچاسکتے ہیں۔