دھڑکنوں کی زبان۔۔ بگاڑ میں حصہ ۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

تربیت نہایت پیچیدہ اور تھکا دینے والا عمل ہے۔۔تربیت دینے والا اگر عملی طور پر کسی صلاحیت کا مالک نہ ہو تو وہ تربیت کے عمل میں بری طرح ناکام ہوجاتا ہے۔۔سیانوں نے تربیت پر اثر انداز ہونے عوامل میں وراثت،ماحول، جعرافیہ، معاشرہ، رسوم ورواج، وقت کے تقاضے،دور کی مجبوریوں کا ذکر کیا ہے۔۔پھر ماں کی گود۔۔باپ کا کندھا۔۔پھر ادارہ۔۔استاد۔۔ساتھی اور آگے نصاب کو شامل کیا ہے۔۔مگر سیانوں کا کیا۔۔ یہ ماننے والی بات ہے بلکہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ماں کا کردار اولاد کی تربیت میں سب سے اہم ہے۔۔ماں اگر اعلی ٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کا مالک ہو تو اس کی اولاد کبھی برے کردار کا مالک نہ ہوگا۔۔جس اولاد کی رگوں میں پاکیزہ ماں کا خون دوڑ رہا ہو وہ کبھی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوگا۔۔ہمار ی تربیت سرے سے ہے ہی نہیں۔۔ہم اتنے غافل ہیں کہ ہماری اولاد ہمارے سامنے جوان ہوتی ہے مگر ہم اس کی حرکات و سکنا ت سے سرے سے بے خبر ہوتے ہیں۔۔بیٹا سگریٹ پینے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ہمیں پتہ نہیں ہوتا۔۔۔بیٹی نے فیشن کی دنیا میں بہت آگے بڑھ چکی ہوگی۔۔اس کا ناخن انچوں بڑے ہوئے ہونگے۔۔بال بکھرے ہوئے ہونگے۔۔ہونٹ ہمارے سامنے لال لال ہونگے۔۔قمیص کوتاہ شلوار پتلون ہوگی۔۔سنڈل کی ٹک ٹک سے بدن میں زلزلہ آرہا ہوگا۔۔اس سمے ہم دوسروں کے بچوں پہ تبصیرہ کر رہے ہونگے۔۔ہماری بچی ہمارے سامنے ہوگی۔۔اس کا لباس۔اس کی پوشاک۔۔اسکے ہاتھ میں موبیل سیٹ۔۔اس کادوپٹا جو شانوں پہ ہوگا۔لیکن ہماری آنکھوں کے سامنے پردہ ہوگا ہم کچھ نہیں دیکھ رہے ہونگے۔۔اس کے موبیل میں فوٹو ہونگی۔۔ایس ایم ایس۔۔ایم ایم ایس ہونگے۔۔فون نمبر ہونگے۔۔ سکرین شارٹ۔۔ڈاؤن لوڈ ز۔۔فلمز۔۔غزلیں۔۔پھر نیٹ پیکچ ہوگا۔۔اس میں تو ایک دنیا ہوگی۔۔تربیت کے اس خطرناک دور میں یہ ہیجان انگیزیاں ان کو تباہ کر چکے ہونگے۔۔۔ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ہاں دوسروں کے بچے نظر آتے ہیں۔۔ہمیں یہ نظر نہیں آتا کہ ہم اپنے بچوں کے سامنے نسوار ڈالتے ہیں۔ان کے سامنے سیگرٹ پیتے ہیں۔۔ان کے سامنے گالیاں دیتے ہیں۔ان کے سامنے دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔۔ان سے بھی اور ان کے سامنے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔۔ہم گندم کی کٹائی سے دوپہر گیا رہ بجے واپس آتے ہیں مگر وہ سویا ہوا ہوتا ہے۔۔ماں اس کی حمایت کر رہی ہوتی ہے۔۔بہنیں اس سے بات نہیں کر سکتیں۔۔پچھلے پندرہ سالوں سے سویرے اٹھنے کی تربیت اس کی نہیں ہوئی۔۔اب دیر سے اٹھنا اس کی عادت بن گئی ہے اور وہ جوان وہ گیا ہے۔۔اب اس سے بات کرنا بے سود ہے۔۔وہ آکھیاں مل مل کر تمہاری طرف دیکھے گا تو تم لرزہ بر آندام ہو جاوگے۔۔بیٹی کا رشتہ آئے گا تو وہ ڈھٹائی سے ”نو“ کہے گی تو قریب کو چھوڑو دور کے پہاڑ گونج اٹھیں گے۔۔عید کے کپڑوں کی خریداری خود کرے گی۔۔شاپنگ پہ خود جائے گی۔۔اگر آپ ان سے کپڑے لانے کا کہیں گے تو زہر بھری ہنسی اس کے چہرے مہرے پہ نمودار ہوگی اور آپ زمین میں گڑ ھ جائیں گے۔۔شادی میں شرکت۔۔شام کی سیر۔۔کالج میں داخلہ۔۔امتحان میں نقل اس کی مرضی سے ہوگی۔۔کم نمبر لے گا تو قصور آپ کا ہوگا۔۔آپ اس کے پاس اور فیل ہونے کے بارے میں جو بھی سنیں گے آپ کو سر جھکا کے خاموش ہونا ہوگا۔۔پھر چرس کا دھواں۔۔سگریٹ کا مرغولہ۔۔شراب کی بد بو تک جائے گا ۔۔اب ہم وقت،زمانہ،معاشرے،ماحول،اداروں اساتذہ،تعلیمی نظام،حلقہ احباب۔۔پھر پولیس عدالتوں کو ملامت کرتے رہیں گے۔۔کبھی نہیں سوچیں گے کہ ہمارے کردار نے ان نونہالوں کو یہاں تک پہنچایا ہے۔۔اس بگاڑ میں سب سے بڑا حصہ ہمارا ہے۔۔اس بیچارے کو ماں کی گود نصیب نہیں ہوئی۔۔ماں کے سینے سے دودھ پینے کی بجائے بوتل کا دودھ پیا۔۔عظیم باپ کا کندھا نصیب نہیں ہوا۔۔بہن کے پیار بھرے الفاظ سماعت سے نہیں ٹکرائے۔۔پیارے بھائی سامنے مثال نہیں بنا۔۔محنتی استاد کی صحبت نہیں ملی۔۔ گھر میں حلال کمائی سے تیار پاکیزہ خوراک نہیں ملی۔۔اب بگاڑ میں روکاوٹ کیسی۔۔ بگاڑ کی وجہ تو ہم ہوئے۔۔بگاڑ کا سامان ہم نے مہیا کیا۔۔یہ ہمار ی صحبت کا کمال ہوا ورنہ تو یہ نتیجہ نہ ہوتا۔۔تربیت تعلیم سے اہم چیز ہے۔۔تربیت کسی فرد کے لئے لازمی ہے یہاں سے پور ی قوم کی تربیت ہوتی ہے۔۔تربیت میں جس کا بڑا کردار ہونا چاہیے وہ ہم ہیں ۔۔ہم والدیں ہیں۔۔ہم اساتذہ ہیں ہم گاؤں کے بزرگ ہیں۔۔ہماری آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بے قصور گرداں کر دوسروں کو ملامت کرتے ہیں۔۔قران نے کہا کہ”وہ اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں“تربیت اصل تعلیم ہے۔۔فخر موجوداتﷺ نے فرمایا۔۔مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے تاکہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کر سکوں۔۔مکارم اخلاق کی تکمیل تربیت سے ہوتی ہے تعلیم سے نہیں۔۔جس کی تربیت ہمارے سامنے ہو رہی ہے وہ یا تو ہماری اولاد ہے یا ہما را شاگرد ہے یا ہمارا رشتہ دار ہے یا گاؤں کا نونہال ہے وہ قوم کافرد ہے اس کی تربیت میں ہمارا بھر پور حصہ ہے اگر ایسا ہے تو اس کے بگاڑ میں بھی ہمارا کردار ہے۔۔آج کی یہ افراتفری اور بے ترتیبی ہماری وجہ سے ہے
مقصود ہو اگر تربیت لعل بدخشان
بے سود ہیں بھٹکے ہوئے خورشید کے پرتو